ملٹری اور ملا
تحریک طالبان پاکستان خلاف جنگ کے اخلاقی جواز کو چیلنج کر کے، اس مشن کے حوالے سے ہمارے فوجیوں کے عزم کو متاثر کرنے کی منور حسن نے جو کوشش کی ہے اس پر ناراضگی، ایک بات ہے- جبکہ، حکیم اللہ کی موت پر جماعت اسلامی کے نفرت انگیز ردعمل سے سبق سیکھتے ہوۓ اس کے لئے اصلاحی کارروائی کرنا بالکل مختلف بات-
اگر آئی ایس پی آر کی طرف سے منور حسن پر تنقیدی بیان اور اس کے جواب میں جے آئی کے ردعمل کو دیکھا جاۓ، تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بندھن ٹوٹ رہا ہے، بلکہ یہ دو عاشقوں کے درمیان ایسی دوری ہے جس میں ایک دوسرے کو واپس لانے کی مشترکہ خواہش پوشیدہ ہے-
اصول کی بات تو یہ ہے کہ، آئی ایس پی آر کا یہ کام نہیں کہ وہ جے آئی جیسی نابکار سیاسی پارٹی سے معافی کی طلبگار ہو- ہمارے درمیان موجود درندوں سے دفاع کے لئے برسر پیکار فوجیوں اور ان شہداء کے اہل خانہ کو پنہچنے والی اذیت پر ایک بیان کا اجرا، اور ساتھ ہی آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوۓ ملک کو قومی سلامتی کے خطرات سے بچانے کا از سرنو عزم ہی کافی تھا-
جماعت اسلامی کی مذمت اور اس سے معافی کا مطالبہ ضروری ہے- لیکن یہ مطالبہ سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے ہونا تھا-
جماعت اسلامی کی مذمت قابل ذکر رہی ہے- ہمارے لوگوں کو اتنا احساس تو ہے کہ اپنے بہادر فوجیوں کی قربانیوں کو محض اس لئے حقیر نہ سمجھیں کیوں کہ ہمارے جنرل مسلسل گھپلا کرتے رہتے ہیں-
سنہ انیس سو اسی، میں نہ وہ ہمارے فوجی تھے اور نا ہی ہمارے افسروں کی اکثریت جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ‘اچھے’ افغان جہاد میں پاکستان، امریکا کا ساتھ دے گا- نہ ہی یہ وہ فوجی اور افسران تھے جنہوں نے نائن الیون کے بعد ‘برے’ جہاد کے نام پر چوہے بلی کے کھیل کا فیصلہ کیا تھا-
نہ یہ ان فوجیوں اور افسران کا فیصلہ تھا کہ فوج جان بوجھ کر بلا سوچے سمجھے قومی سلامتی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے غیر ریاستی عناصر کو متشدد مذہبی نظریات کی تعلیم کے ساتھ استعمال کرے گی-
یہ وہ فوجی اور افسران نہیں تھے جنہوں نے ملٹری-ملا کا اتحاد بنایا اور جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے قومی مفاد کے دوغلے اور غیر ذمہ دار تصورات تیار کیے اور مذہبی ہدایات سے اخذ کیے گۓ ضابطہ اخلاق کو قانون اور آئین سےحاصل ہونے والے قانونی جواز کے متبادل کے طور پر استعمال کیا-
لیکن سیاسی عزائم کے حامل خود پرست جرنیلوں کی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ان فوجیوں کی قربانیوں کو اجاگر کرنا ایک پائیدار حکمت عملی نہیں ہے، ان جرنیلوں کے مہلک انتخابات نے ملک میں انتشار کے جو بیج بوۓ تھے وہ آج ایک تناور درخت بن گۓ ہیں-
آج جس اصلاح کی ہمیں خواہش ہے، وہ خاکی قیادت کی طرف سے ماضی میں کیے جانے والے غلط انتخابات کےکھلے اعتراف اور ان کو کالعدم کرنے کے عزم، کے بغیر ممکن نہیں-
ملا-ملٹری اتحاد کی اصل بنیاد اس یقین پر ہے کہ یہ ایک دوسرے کو کنٹرول کر سکتے ہیں- آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان اور جماعت اسلامی کا اس پر رد عمل اس بات کی غمازی ہے کہ مذکورہ یقین منور حسن کی زہر بیانی کے باوجود بھی زندہ ہے-
مودودی کی ‘قربانیوں’ کا ذکر کر کے، خاکی قیادت، جماعت اسلامی کے لیڈروں اور اس کے پیروکاروں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ موجود امیر، بانی جماعت کے وضح کردہ راستے سے بھٹک رہے ہیں- اور فوج کے لئے اپنی تاریخی حمایت دہراتے ہوۓ (سنہ انیس سو اکہتر کا حوالہ دے کر)، جماتی اسلامی یہ اشارہ دے رہی ہے کہ وہ اب بھی آرمی کا ساتھ دینا چاہتی ہے، لیکن اس کے لئے آخر الذکر کو صالح جنگوں کی طرف لوٹنا ہوگا-
کیا ہماری خاکی قیادت کو جماعت اسلامی نے جگا دیا ہے یا یہ ابھی تک اونگھ ہی رہی ہے؟ جماعت اور اس کے کزن نہیں بدلے، یہ دنیا بدل گئی ہے اور ہماری قومی سلامتی کی ضروریات بھی-
جب ملٹری نے پہلے ملا کو ریاستی سرپرستی میں لیا تو اسے احساس نہیں تھا کہ جیسے جیسے قومی آرمی ایک نظریاتی آرمی میں تبدیل ہوتی جاۓ گی، کنٹرول اور پہل کا حق ملٹری سے ملا کو منتقل ہوتا جاۓ گا- آج، اگر ملٹری جماعت اسلامی کو غدار کہہ رہی ہے تو اس میں جماعت اسلامی کو کوئی مسئلہ نہیں-
لیکن آرمی پر جماعت اسلامی کی یہ تہمت کہ وہ کافروں کے لئے کراۓ کی قاتل بن گئی ہے، فوج کی صفوں میں اندر ہی اندر بغاوت پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہے- جب موت کا سامنا ہوتا ہے تو ہر اعتقادی خدا سے قوّت مانگتا ہے، چاہے وہ کوئی گرتا ہوا ہوئی جہاز ہو یا جنگ کا میدان- ایک ملک جس میں ستانوے فیصد مسلمان ہوں، آرمی کا جنگی نعرہ ہمیشہ ‘الله اکبر’ ہی ہوگا- لیکن ہماری آرمی لڑ کس کے لئے رہی ہے ؟ اسلام کے لئے یا پاکستان کے لئے؟
اگر یہ دونوں ایک ہی چیز کا نام ہیں تو پھرکوئی الجھن نہیں- لیکن جب ایمان کے خود ساختہ محافظ، اسلام کے مقصد کی ایسی تشریح کریں جو ایک عاقل شہری کے مقصد پاکستان اور (اسلام) سے متنازعہ ہو، جیسا کہ موجودہ تحریک طالبان کی طرف سے خطرہ درپیش ہے، تو پھر اس وقت آرمی کہاں کھڑی ہے؟
یہ خیال کہ خاکی وردی والے، نظریاتی کنٹرول کی اس جنگ میں جماعت اسلامی اور تشدد پسند تکفیری گروہوں القائدہ اور تحریک طالبان پر سبقت لے جائیں گے، نہ صرف ایک خواب ہے بلکہ تکبر کی ایک مثال ہے جو کہ بقلم خود قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے-
اسے الزام تراشی نہیں بلکہ اصلاح سمجھیں- آرمی خود کو قومی فوج سمجھے نظریاتی نہیں، جو کہ ہماری دوغلی بریگیڈ کے پروپیگنڈا کی وجہ سے اندرونی انتشار کا شکار ہو جاۓ-
ہمارے قومی سلامتی کے اداروں اور جہادیوں یا غیر ریاستی عناصر( جو بھی آپ کہنا چاہیں ) کے درمیان اتحاد مکمل تصدیق کے ساتھ ختم ہونا چاہیے- اگر ہم ایسے لوگوں کو پاکستان ا نکال باہر کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اچھے مسلمان اور برے مسلمان میں تفریق کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے تو پہلے ملٹری کو اچھے اور برے جہادیوں میں تفریق ختم کرنا ہوگی-
لڑنا یا بات چیت مسئلے کا حل نہیں ہیں- ہمیں ان سے بات ضرور کرنی چاہیے جو پاکستان کو ایک جہادی ریاست کے بجاۓ اسلامی ریاست کے طور پر قبول کریں- ہمیں ان لوگوں سے لڑنا ہوگا جو مر کر یا مار کر، پاکستان کو اپنے عالمی جہاد کا اگلا ہدف بنانا چاہتے ہیں-
ہمیں اپنے وائلڈ ویسٹ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جرگہ کی ضرورت ہے- لیکن یہ بات چیت تحریک طالبان کے ساتھ نہیں بلکہ بلکہ فاٹا قبائل کے نمائندوں سے کی جانی چاہیے تاکہ قبائلی شہریوں کو اختیارات دینے کے اقدامات پر اتفاق کیا جاۓ اور آئین اور قومی ریاستی نظام کے دائرہ کار میں رہتے ہوے پاکستان اور دنیا کی طرف انکی ذمہ داریوں کی دوبارہ وضاحت کی جاۓ-
یہ کام جماعت اسلامی کے بغیر ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے ایک مضبوط فومی آرمی کی ضرورت ہے- مختلف دنیاوی نظریات کے حامل دو شراکت کاروں کے درمیان ایک تباہ کن بندھن سے بہتر ہے کہ اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جاۓ-
مصنف ایک وکیل ہیں-
ترجمہ: ناہید اسرار












لائیو ٹی وی