کراچی کی سردی
جس طرح فوک کہانی کا شریر لڑکا گاؤں والوں سے آ کر کہتا ہے کہ شیر آیا! شیر آیا! اسی طرح میڈیا کراچی والوں سے کہتا ہے کہ سردیاں آئیں، سردیاں آئیں لیکن سردیاں کراچی والوں سے اشرف کی محبوبہ کی طرح روٹھ گئ ہیں۔
شہر میں چکن کارن سوپ اور مونگ پھلی کے ٹھیلے بھی جا بجا نظر آنے شروع ہو گئے ہیں اور مصروف شاہراؤں پر لگے ہورڈنگز میں ڈیزائنرز کے ونٹر کلیکشن بھی لوگوں کا منہ چڑا رہے ہیں لیکن مہمان ہے کہ آ کر نہیں دے رہا۔
ہمارے ایک دوست نے اپنی الماری کھول کر ہمیں اپنے مفلروں کا کلیکشن دکھایا، پوری الماری رنگ برنگے مفلروں سے بھری ہوئی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر میرے دوست آبدیدہ ہو گئے کہ کس شان سے لاہور کی سڑکوں پر وہ ان مفلروں کو پہن کر خواتین کو سرد موسم میں گرم گرم نظروں سے دیکھتے تھے۔
کچھ خواتین و حضرات صبح صبح پڑنے والی ارمانوں کی اوس کو سردی سمجھ کر گرم کپڑے چڑھا لیتے ہیں اور دن چڑھتے چڑھتے وہ بھٹے کی طرح بھن چکے ہوتے ہیں اور کراچی کے موسم کو اسی طرح کوس رہے ہوتے ہیں جس طرح حکمرانوں کو کوسا جاتا ہے۔
لوڈ شیڈنگ بڑھ جائے کراچی والے اپنا غصہ کے ای ایس سی پر نکال لیتے ہیں پانی کی قلت ہو جائے تو واٹر بورڈ کی مرن آ جاتی ہے لیکن سردیوں کے نا آنے کا غصہ کس پر نکالیں، کس کے خلاف احتجاج کریں، سڑکوں پر ٹائر جلائیں گے تو الٹا گرمی میں اضافہ ہی ہوگا۔
کہتے ہیں سردیاں آنے سے آبادی میں اضافہ ہو جاتا ہے شاید کراچی کی سردی اسی لیئے بند کر دی گئی ہے کہ یہاں کی آبادی پہلے ہی تجاوز فرما چکی ہے۔
کراچی والے اس وقت اور حسرت و یاس کی تصویر بن جاتے ہیں جب میڈیا بتاتا ہے کہ مشرق وسطٰی میں برفانی طوفان آیا ہے وہاں برف باری کا بیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ اب تو کچھ امیر زادوں نے فیصلہ کر لیا ہے جون جولائی کی طرح وہ دسمبر اور جنوری میں کسی ٹھنڈے مقام پر گزارا کریں گے۔
سردیوں کی سوغات ڈرائی فروٹ، گاجر کا حلوہ، نیا آلو اور مٹر کو مانا جاتا ہے کراچی میں گرم گرم گاجر کا حلوہ کھاتے ہوئے پسینہ چھوٹ جاتا ہے اور ڈرائی فروٹ زیادہ کھا لیں تو نکسیر پھوٹنے کا ڈر رہتا ہے۔
سردیوں کے نہ آنے کے کچھ نہ کچھ فائدے تو ہیں ایک بڑا فائدہ گیس کی قلت کا نا ہونا ہے دوسرے شہروں کی طرح کراچی میں گیس کی قلت نہیں ہوتی کیونکہ یہاں نہ گیزر چلتے ہیں نہ ہیٹر اور پھر بجلی بھی پوری آتی ہے آپ آرام سے AC چلا کر لحاف اوڑھ کر اور گرم گرم مونگ پھلیاں کھا کر سردیوں کے مزے اٹھا سکتے ہیں۔
دسمبر کے مہینے میں کڑی دھوپ میں کھڑی دہکتی ہوئی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کراچی والوں کو رونا آجاتا ہے کہ وہ کون سی سردیاں ہیں جس میں دھوپ بھی معلوم ہوتی ہے۔
کوئٹہ میں اگر بلینکٹ کا وزن 5 کلو ہوتا ہے تو کراچی میں لوگ پنکھا چلا کر آدھا کلو والا بلینکٹ اوڑھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں آج کچھ سردی میں اضافہ ہوا ہے۔
پتہ نہیں یہ خواب ہے یا حقیقت کہ کبھی کراچی میں سردیوں کی آمد سے پہلے گھروں میں لحافوں کی سلائی شروع ہو جاتی تھی خواتین کے ہاتھوں میں سوئیٹر بننے والی سلائیاں آ جاتی تھیں اور رات میں نانی مٹی کی انگیٹھی میں دہکتے کوئلے بھر کر چار پائیوں کے نیچے رکھ دیتی تھیں۔
اب تو صرف یہی امید کرتے ہیں کہ شاید کوئٹہ والوں کو ہم پر ترس آ جائے اور وہ اپنے پنکھوں کا رخ ہماری طرف موڑ دیں اور وہ سائبیریا کی ہوا جو کبھی قندھاری اور کبھی کوئٹہ کی ہوا کہلاتی ہے تھکی ہاری ایک لمبے سفر کے بعد کراچی پہنچ جائے اور ہم سردی کی لہر سے اپنی داڑھ گرم کر لیں۔











لائیو ٹی وی