پاکستانی ٹرک آرٹ

اپ ڈیٹ 01 اگست 2014

وں تو پاکستان میں آرٹ کو ہمیشہ ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کے بہت سارے فنکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھا کر دنیا بھر میں نام پیدا کیا ہے وہیں پاکستان کو ایک الگ پہچان اور شہرت دینے والا فن ’پاکستانی ٹرک آرٹ‘ دنیا بھر میں خوب نام پیدا کر رہا ہے جس سے پاکستان کا ایک مثبت اور خوب صورت چہرہ دنیا بھر میں روشناس ہو رہا ہے۔

پہلے یہ کام گھوڑا گاڑی اور اونٹ گاڑیوں پر ہوا کرتا تھا، پھر جب ٹرک آئے تو ٹرک پر رنگ و روغن کا کام ہونےلگا اور پھول پتیاں غرض کہ ہر قسم کے ڈیزائن، انسانی شکلیں اور مختلف تحریروں پر مبنی مختلف رنگوں کا استعمال کرکے یہ آرٹ 'ٹرک آرٹ' کی صورت میں ڈھل گیا — اے ایف پی فوٹو
پہلے یہ کام گھوڑا گاڑی اور اونٹ گاڑیوں پر ہوا کرتا تھا، پھر جب ٹرک آئے تو ٹرک پر رنگ و روغن کا کام ہونےلگا اور پھول پتیاں غرض کہ ہر قسم کے ڈیزائن، انسانی شکلیں اور مختلف تحریروں پر مبنی مختلف رنگوں کا استعمال کرکے یہ آرٹ 'ٹرک آرٹ' کی صورت میں ڈھل گیا — اے ایف پی فوٹو
پاکستانی ٹرک آرٹ سے تیار کئے گئے رنگ برنگے خوب صورت ڈیزائنوں، پھول پتیوں اور مختلف نقش و نگار سے مزین یہ دیوہیکل ٹرک جب ملکی سرحدوں کے باہر لمبی مسافتوں پر نکلتے ہیں تو 'ٹرک آرٹ' کو دیکھ کر بآسانی پاکستانی آرٹ کو پہچانا جاتا ہے — اے ایف پی فوٹو
پاکستانی ٹرک آرٹ سے تیار کئے گئے رنگ برنگے خوب صورت ڈیزائنوں، پھول پتیوں اور مختلف نقش و نگار سے مزین یہ دیوہیکل ٹرک جب ملکی سرحدوں کے باہر لمبی مسافتوں پر نکلتے ہیں تو 'ٹرک آرٹ' کو دیکھ کر بآسانی پاکستانی آرٹ کو پہچانا جاتا ہے — اے ایف پی فوٹو
رنگا رنگ ڈیزائن، خطاطی، ہیروز اور گلوکاروں کی تصاویر، چھوٹے چھوٹے شیشے اور دیگر ان فنکاروں جیسے حیدر علی کا خاصہ ہے — اے ایف پی فوٹو
رنگا رنگ ڈیزائن، خطاطی، ہیروز اور گلوکاروں کی تصاویر، چھوٹے چھوٹے شیشے اور دیگر ان فنکاروں جیسے حیدر علی کا خاصہ ہے — اے ایف پی فوٹو
پاکستان کو ایک منفرد پہچان دلانے والے 'ٹرک آرٹ' کو پاکستان میں تو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا مگر دنیا کے کئی ممالک میں اس کام کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ٹرک آرٹسٹ حیدر علی بتاتے ہیں کہ، ’پاکستان میں اسے فن نہیں مانا جاتا جبکہ لندن اولمپک گیمز میں ہم نے پاکستانی ٹرک آرٹ کو پیش کر کے کافی شہرت پائی جبکہ کینیڈا، استنبول، ترکی، انقرہ، اور ہندوستان میں بھی اسے متعارف کر وایا ہے‘ — اے ایف پی فوٹو
پاکستان کو ایک منفرد پہچان دلانے والے 'ٹرک آرٹ' کو پاکستان میں تو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا مگر دنیا کے کئی ممالک میں اس کام کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ٹرک آرٹسٹ حیدر علی بتاتے ہیں کہ، ’پاکستان میں اسے فن نہیں مانا جاتا جبکہ لندن اولمپک گیمز میں ہم نے پاکستانی ٹرک آرٹ کو پیش کر کے کافی شہرت پائی جبکہ کینیڈا، استنبول، ترکی، انقرہ، اور ہندوستان میں بھی اسے متعارف کر وایا ہے‘ — اے ایف پی فوٹو
ان کے بقول ڈیزائن کا انحصار ٹرک کے مالک کے مزاج پر ہوتا ہے، ہر شخص اپنے ٹرک کو دوسروں سے مختلف دکھانا چاہتا ہے، حالیہ برسوں میں ٹرک آرٹ بیرون ملک پاکستانی ثقافت کی فروغ کا ذریعہ بنا ہے مگر اپنے وطن میں اسے زیادہ سراہا نہیں جاتا — اے ایف پی فوٹو
ان کے بقول ڈیزائن کا انحصار ٹرک کے مالک کے مزاج پر ہوتا ہے، ہر شخص اپنے ٹرک کو دوسروں سے مختلف دکھانا چاہتا ہے، حالیہ برسوں میں ٹرک آرٹ بیرون ملک پاکستانی ثقافت کی فروغ کا ذریعہ بنا ہے مگر اپنے وطن میں اسے زیادہ سراہا نہیں جاتا — اے ایف پی فوٹو
ہمارے ملک میں اسے کوئی نہیں مانتا تھا اور ابھی تک اسے باقاعدہ طور پر کسی کام میں شمار نہیں کیا جاتا جبکہ پاکستان میں اس سے قبل اس آرٹ کو صرف پینٹنگ اور 'پھول پتی' کے نام سے جانا جاتا تھا — اے ایف پی فوٹو
ہمارے ملک میں اسے کوئی نہیں مانتا تھا اور ابھی تک اسے باقاعدہ طور پر کسی کام میں شمار نہیں کیا جاتا جبکہ پاکستان میں اس سے قبل اس آرٹ کو صرف پینٹنگ اور 'پھول پتی' کے نام سے جانا جاتا تھا — اے ایف پی فوٹو
ایک ٹرک کو تیار کرنے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے لگ جاتے ہیں، باقی ٹرک کے سائز اور کام پر منحصر ہے، جبکہ برانڈ نیو ٹرک پر لاکھوں روپے خرچہ آتا ہے جبکہ ایک ٹرک کی تیاری میں ایک سے دو ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے جس میں دس سے بارہ مزدور کام کرتے ہیں‘ — اے ایف پی فوٹو
ایک ٹرک کو تیار کرنے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے لگ جاتے ہیں، باقی ٹرک کے سائز اور کام پر منحصر ہے، جبکہ برانڈ نیو ٹرک پر لاکھوں روپے خرچہ آتا ہے جبکہ ایک ٹرک کی تیاری میں ایک سے دو ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے جس میں دس سے بارہ مزدور کام کرتے ہیں‘ — اے ایف پی فوٹو