کراچی میں دو بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹس کی سائٹ پر کام شروع کردیا گیا ہے- ان دونوں ری ایکٹروں میں سے ہر ایک کی پیداواری صلاحیت پاکستان میں موجودہ تمام نیوکلیئر پاور اسٹیشنوں کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہوگی-

یہ پاکستان کے اب تک کے نیوکلیئر پاور اسٹیشنوں میں سب سے بڑا پروجیکٹ ہوگا- اس لئے چند بنیادی سوالات پوچھنے کیلئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے تاکہ لوگوں کو، خصوصاً کراچی میں رہنے والوں کو پتہ چلے کہ کیا ہونے والا ہے-

یہ بات تو ہر ایک کو پتہ ہے کہ چین سے نئے ری ایکٹرخریدے جارہے ہیں- اور چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن (CNNC) اس ری ایکٹر کو ڈیزائن کریگی اور پھر اس کو بنانے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوگی-

لیکن جو بات شائد لوگوں کو نہیں معلوم ہے وہ یہ ہے کہ ان ری ایکٹروں کے ڈیزائن کی بنیاد جس سسٹم پر ہے اسے 1000-ACP کہتے ہیں اور جو ابھی تک اس چینی نیوکلیئر پاور کمپنی میں تیاری کے مراحل میں ہے- درحقیقت، کراچی کیلئے جو ری ایکٹر خریدے جا رہے ہیں ان کا وجود ابھی صرف کاغذ پر ہے یا کمپیوٹر پروگراموں میں ہے --- لیکن پورے چین میں ابھی اس ڈیزائن پربنا ہوا ایک بھی ری ایکٹر آپریشن میں نہیں ہے-

اپریل 2013ء میں یہ رپورٹ آئی تھی کہ CNNC، جو اس ری ایکٹر کو بنا رہے ہیں اس نے "بنیادی حفاظتی تجزیہ کی رپورٹ" کو مکمل کرلیا ہے اس کے بعد وہ اس کے ڈیزائن پر کام کررہے تھے-

اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک ڈیزائن بھی مکمل نہیں- اور کیونکہ کراچی میں لگنے والے ری ایکٹرز اپنی قسم کے پہلے ری ایکٹرز ہونگے، لہٰذا کسی کو بھی علم نہیں ہے کہ ان کا استعمال کتنا محفوظ ہے اور یہ کہ وہ کیسے کام کرینگے- کراچی کے دو کروڑعوام ایک بڑے نیوکلیئر پلانٹ کے حفاظتی تجربے کی بھینٹ چڑھنے والے ہیں-

فوکوشیما کے نیوکلیئر حادثہ نے یہ دکھادیا ہے کہ کوئی بھی حفاظتی سسٹم بری طرح ناکام ہو کر بڑی تباہی پھیلا سکتا ہے- 2011ء کے اس حادثہ نے ایک ایسے جاپانی ری ایکٹر کو نشانہ بنایا جو کہ ایک جانے بوجھے ڈیزائن پر بنا تھا اور کئی دہائیوں سے کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا- اس کے باوجود بھی ہر وہ چیز وہاں ہوئی جس کی امید ری ایکٹر کے آپریٹرز یا مینیجرز یا نیوکلیئرپلانٹ کے حفاظتی عملے کو نہیں تھی-

فوکوشیما کے نیوکلیئر حادثہ سے یہ اہم سبق ملتا ہے کہ نیوکلیئر پلانٹ بنانے والی کمپنیاں عموماً ایسے حادثوں کے ہونے یا ان کی ممکنہ تباہ کاریوں کا اندازہ ہی نہیں لگا پاتی ہیں- دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ یہی کمپنیاں ان نیوکلیئر تباہ کاریوں سے نمٹنے کی اپنی صلاحیتوں کا اندازہ بھی ضرورت سے زیادہ ہی لگاتی ہیں-

فوکوشیما کے نیوکلیئر حادثہ میں جاپان کی مایہ ناز انتظامی صلاحیتوں، ٹکنولوجیکل برتری اور سماجی نظم و ضبط کے باوجود حفاظتی عملہ بری طرح ناکام ہوا-

فوکوشیما پلانٹ کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے تقریباً دو لاکھ افراد کو یہ علاقہ خالی کرنا پڑا تھا جن میں سے کچھ لوگوں کو شائد کبھی واپسی کی اجازت نہ ملے- تابکاری کے ذرات ہوا نے ہر طرف پھیلادئے تھے اور تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے تک زمین کو آلودہ کردیا تھا-

امریکہ نے جاپان میں اس علاقے میں رہنے والے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ری ایکٹر سے کم ازکم 80 کلومیٹر دور چلے جائیں- حکومت جاپان نے ری ایکٹر سے 170 کلومیٹرکے اندر رہنے والے ہر شخص کو لازمی طور پر علاقے کو چھوڑدینے کی ہدایات جاری کیں، اس کے ساتھ ساتھ ری ایکٹرسے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر رہنے والوں کو علاقہ رضاکارانہ خالی کرنے پر سہولتیں فراہم کرنے کی پیشکش کی- 250 کلومیٹر کے فاصلے پر بھی کھانا اور پانی تابکاری کے اثر سے آلودہ پایا گیا تھا-

اس آلودگی کے اثر کو ختم کرنے کی لاگت کا تخمینہ تقریباً 100بلین ڈالرلگایا گیا ہے جو شائد اس سے بڑھ بھی سکتا ہے-

تو پھر کتنا بڑا، کتنا خظرناک اور کتنا مہنگا نیوکلیئر تجربہ کراچی میں کیا جانے والا ہے؟

سائینس کے رسالہ نیچر اور نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی نے، دو سال پہلے 2011ء میں ایک تجزیہ کیا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کراچی کے نیوکلیئر ری ایکٹر سے تیس کلومیٹر کے فاصلے تک رہنے والوں کی تعداد دنیا بھر میں ہر ری ایکٹر کے مقابلے میں زیادہ ہے-

اس رپورٹ کے مطابق2011ء میں، 80 لاکھ شہری ری ایکٹر سے اتنے فاصلے میں رہتے تھے، اور آج تقریباً پورا کراچی ری ایکٹر کے علاقے سے 40 میل کے فاصلے کے اندر ہے-

ابھی تک، کسی قسم کا کوئی عوامی ردعمل یا بحث و مباحثہ کراچی کے نئے ری ایکٹروں کی جگہ کی موزونیت کے بارے میں سننے میں نہیں آیا ہے- نہ ہی مذکورہ نئے ری ایکٹروں سے متعلق کسی قسم کَے ماحولیاتی اثرات کے تخمینہ کی کوئی رپورٹ ہے- نہ تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور نہ ہی پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اس مجوزہ ری ایکٹر میں کسی حادثے کی صورت میں کیا کیا جائیگا-

ایک ابتدائی جائزہ، جو رپورٹ کے مصنفین کا تیار کردہ ہے، کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ کسی شدید حادثہ کی صورت میں تاب کار مادے کا اخراج ہوا کے رخ میں مشرق کی جانب ہوگا جو پورے شہر کے سب سے زیادہ گھنی آبادی والے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے-

ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے نیوکلیئر ایندھن کی سپلائی کے سلسلے میں کیا معاہدے ہوئے ہیں اور کیا شرائط طے پائی ہیں اس کے بارے میں کوئی معلومات عام نہیں کی گئی ہیں جیسے کہ آخر کب تک، استعمال شدہ انتہائی گرم، بے حد تابکار مادہ ری ایکٹر کی سائٹ پر موجود رہے گا اور واپس چین کو بھیجنے سے پہلے کب تک اس کو وہاں اسٹور کرنے کا انتظام ہے یا اس کو واپس بھیجنا بھی ہے یا نہیں- یہی استعمال شدہ ایندھن فوکوشیما کے حادثہ میں تابکاری کے اخراج کا سبب بنا تھا-

آخر میں، کسی ایمرجنسی کی صورت میں کیا لائحۂ عمل ہوگا اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں، اگر اچانک لوگوں کے ممکنہ اخراج کی ضرورت پڑی تو اس سلسلے میں کیا منصوبے تیار کئے گئے ہیں؟ ایسے منصوبے ہیں بھی یا نہیں اس بارے میں بھی کسی قسم کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں-

ایک سوال ان لوگوں کیلئے ہے جو کراچی کے لئے ذمہ دار ہیں، سندھ کے لئے ذمہ دار ہیں اور اسلام آباد میں وفاقی عہدیداران ہیں: اگر خدانخواستہ نئے ری ایکٹرمیں کوئی شدید حادثہ ہوجائے تو کراچی سے لاکھوں لوگوں کو نکالنے کیلئے آپ کیا طریقہ استعمال کرینگے؟

دہشت اور خوف و ہراس سے بھرا ہوا ایک ہجوم، لوگ جو اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو بچانے کیلئے اپنی کوششیں کررہے ہونگے، سڑکیں بھی جام ہونگی، جسکی وجہ سے وہ لوگ جو ری ایکٹروں کے نزدیکی علاقوں میں رہتے ہونگے ان کو جائے فرار بھی ملنا مشکل ہوگی- کیا ایسی صورت میں کسی منصوبہ بندی پر عمل کرنا ممکن ہوگا؟

اور سب سے آخر میں، وہ قیمت جو اس کے اخراجات کی مد میں ہوگی، رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان دو ری ایکٹروں کی قیمت تقریباً 9 سے 10 بلین ڈالر ہے- ان کی ادائیگی چین سے قرض لیکر کی جائیگی- ان ری ایکٹروں کی مالی ادائیگی کی تفصیلات کے بارے میں بھی بہت کم معلومات موجود ہیں- جس میں اس پروجیکٹ کے ختم ہونے کی صورت میں بلکہ استعمال شدہ فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام اور اس کے مکمل اخراجات کی تفصیل ہونی چاہئے-

عوام کے مشاہدے کیلئے حکومت کا کوئی جائزہ بھی موجود نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ یہ ری ایکٹرمناسب قیمت پر اور امید کے مطابق بجلی کی پیداوار کو نظر میں رکھ کر حاصل کئے گئے ہیں-

ان ری ایکٹروں کی قیمت میں حادثوں کی وجہ سے نقصانات کے ازالے کا بھی تعین ہونا چاہئے- اگر ان بجلی گھروں میں ان ری ایکٹروں کے ڈیزائن یا ان کی بناوٹ میں کسی خرابی کی وجہ سے کوئی حادثہ ہوتا ہے، تو اتنے بڑے نقصان کے سدباب کی قیمت کس کی ذمہ داری ہوگی --- چین کی یا پاکستان کی؟

کراچی میں رہنے والوں کو ان سوالوں کے جواب جاننے کا حق ہے- اب وقت آگیا ہے کہ وہ یہ سوالات پوچھنا شروع کردیں-


انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں