سیکیورٹی:صرف الفاظ

04 جنوری 2014
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔۔
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔۔

قومی سلامتی کونسل کو مضبوط کیا جائے گا، بدھ کو وزیراعظم نواز شریف کا یہ ایسا بیان ہے جس سے جوابات کے بجائے مزید سوالات اٹھتے ہیں۔ شاید حوالہ دینے میں وزیرِ اعظم کی زبان پھسل گئی۔ گذشتہ اگست میں جب کابینہ نے اس ادارے کی تشکیل نو کی تو قومی سلامتی کونسل کی اصطلاح سے گریزاں ہوتے ہوئے، کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی کو جنم دیا تھا۔

یہ فرق شاید اس لیے روا رکھا گیا کہ سلامتی اور خارجہ امور پر پالیسی تشکیل میں، ادارے کے اندر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو کردار دینے پر سویلین طویل عرصے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھے، کم از کم قومی سلامتی کونسل جیسا ادارہ جس کا انتظام کابینہ کے ماتحت ہونے کے بجائے متوازی طور پر چلایا جاتا ہو۔

کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی کو اس کے قیام سے ہی، قومی سلامتی کونسل پر ایک مفاہت کے انداز میں دیکھا جارہا ہے، ایسے میں وزیرِ اعظم کے بیان میں اس کے ذکر کو صرف زبان پھسلنے کا واقعہ ہی کہا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ، حکومت، پاکستان میں ایک نئے سلامتی خاکے اور ملکی سلامتی پالیسی پر کام کررہی ہے، ایسے میں اس کی سنجیدگی سے متعلق چند سوالات اٹھتے ہیں۔ ایک ایسا ادارہ جو قومی سلامتی پالیسی پر نظر رکھنے کا ذمہ دار ہو، اگر اس کا نام بھی غلط پکارا جائے تو اس ادارے کے اندر جو معاملات زیرِ بحث لائے جاتے ہیں، ان کے معیار سے متعلق کیا کہیں گے؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت، کس طرح بالکل درست طور پر، قومی سلامتی کی پالیسی کو ازسرِ نو ترتیب دینے کا ارادہ رکھتی ہے؟ جناب شریف بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کا محور ہمسائیوں سے بہتر تعلقات اور زور تجارت پر رہے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی ترتیبِ نو جبکہ داخلی سطح پر عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خطرات کا خاتمہ، تاہم جب ان مقاصد کے حصول کی خاطر قدم آگے بڑھانے کی بات ہو تو پاکستان مسلم لیگ ۔ نون اب تک، اس پر بہت کم پیشکش کرسکی ہے۔

حتیٰ کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر اٹھایا گیا تازہ ترین حکومتی قدم بھی اطمینان کے بجائے مزید پریشانی کا باعث بنا ہے۔ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی ابتدا کے لیے سمیع الحق کے مصالحانہ کردار، جو اُن دیگر حکومتی چینلز کے متوازی کام کرے گا جس پر حکومت نے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا، کو سمجھنے کے قابل بھی صرف چند ہی لوگ ہوں گے۔

مسائل جتنے پرانے اور غیر حقیقی ہوں، چھ ماہ کے دوران ان پالیسی مسائل کے ٹھیک کیے جانے کی توقع بھی اتنی ہی پیچیدہ ہوگی لیکن حکومتی راہ پر، اقدامات کے آغاز اور تصورات کا فقدان واقعی پریشان کُن ہے۔

وزیرِ اعظم جناب شریف نے بدھ کو افغان طالبان اور کرزئی حکومت کے درمیان مذاکرات کو سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ نومبر کے دوران کابل میں جناب کرزئی، جناب شریف کے سامنے کھڑے ہوکر ملا برادر کی افغان حکام سے ملاقات کرانے کی درخواست کررہے تھے اور پھر ایک ماہ بعد پاکستانی ریاست نے مبینہ طور پر انہیں رہا بھی کردیا۔

سلامتی و خارجہ پالیسی کے محاذوں پر حکومت جن اقدامات کے دعوے کرتی رہی ہے، نظر یہ آتا ہے کہ وہ اُن پچھلی کوششوں کی چھان پھٹک کر کے پیش کیے گئے ورژن ہیں، جن کی بھرپور پیروی کی خاطر حقیقت میں کسی حکومت میں اہلیت نہیں۔

ہندوستان کے ساتھ نہایت تیزی سے تعلقات معمول پر لانے کی خاطر جناب شریف کی خواہش شک و شبہ سے پاک ہے لیکن اس کے برعکس، یہاں اصلیت میں صرف الفاظ اور اجلاس ہی ہیں۔

تبدیلی صرف اُسی وقت آسکتی ہے جب وزیراعظم اپنے الفاظ کی پشت پناہی اپنے عمل سے کرنے پر تیار ہوں گے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں