ڈرون کے محدود استعمال کے احکامات دے دیئے،اوباما

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2014
امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف کانگریس کے نئی پابندیوں کے بل مذاکرات پٹری سے اترجانے کا خطرہ ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف کانگریس کے نئی پابندیوں کے بل مذاکرات پٹری سے اترجانے کا خطرہ ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی

واشنگٹن:امریکی صدر براک اوباما نے اپنے سالانہ صدارتی ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں کہا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ اب بھی باقی ہے تاہم حقیقی ضرورت کے علاوہ وہ کسی نئی جنگ کے حق میں نہیں۔

ایوانِ نمائندگان کے ایک مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب میں اْنھوں نے عراق میں جنگ کے خاتمے اور افغان جنگ، جس کا بہت جلد خاتمہ ہونے والا ہے، کو سراہا۔

اْنھوں نے کہا کہ عراق سے ساری فوج کا انخلا ہو چکا ہے جب کہ اس سال کے آخر تک افغانستان کا مشن بھی تکمیل کو پہنچے گا۔

اْنھوں نے کہا کہ 2014ء کے بعد نیٹو کے ہمراہ ایک چھوٹا امریکی فوجی دستہ افغانستان میں رہ سکتا ہے، تاکہ وہاں تربیت کا کام انجام دیا جاسکے۔

' فغان افواج کو مدد فراہم کی جائے گی اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی'۔

اْنھوں نے کہا کہ دہشت گردی کا خطرہ اب بھی باقی ہے اور زور پکڑ رہا ہے۔ اِس ضمن میں اْنھوں نے یمن، صومالیہ، عراق اور مالے میں انتہا پسند نیٹ ورکس کی طرف توجہ دلائی۔

امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے لیکن، قوم کی قیادت اور سلامتی کا دارومدار صرف ملک کی فوج پر نہیں ہونا چاہیئے۔

اوباما نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اْنھوں نے ڈرون کے استعمال کو محدود کرنے کے احکامات دیے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ قومی نگرانی کے پروگراموں میں اصلاحات کی جائیں، جو گذشتہ برس امریکی انٹیلی جنس کے سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے راز افشاء کرنے کے بعد گہری پڑتال کا مرکز بنے۔

صدر نے گواتانامو بے کے امریکی فوجی قید خانے کو بند کیے جانے کے اپنے ہدف کا اعادہ کیا۔

اْنھوں نے ایک ’مضبوط اور اصولی‘ امریکی سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اِسی کے باعث، شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

اْنھوں نے عہد کیا کہ امریکہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرتے ہوئے شام کے بہتر مستقبل کی طرف بڑھے گا، جو ملک، بقول اْن کے،’آمریت، دہشت گردی اور ڈر خوف سے آزاد ہوگا۔

اْنھوں نے اسرائیل۔فلسطین امن عمل کے حصول کی حمایت کے حوالے سے امریکی سفارت کاری کے کردار کو سراہا۔

ایران کے حوالے سے، اوباما نے کہا کہ اگر عالمی برادری کے نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہوئے ایران میسر مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اْس صورت میں امریکہ کو بغیر جنگ کے سلامتی کو درپیش ایک اہم چیلنج کے حل میں کامیابی حاصل ہوگی۔

اوباما نے کہا کہ جوہری پروگرام سے متعلق ایران کے ساتھ مذاکرات مشکل ضرور ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ یہ کامیاب بھی نہ ہوں لیکن اْنھوں نے کہا کہ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ کہیں ایران جوہری بم تو نہیں بنا رہا، معائنے کا عمل ضروری ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر صدر کینیڈی اور ریگن سوویت یونین کے ساتھ مذاکرات کرسکتے تھے تو یقینی طور پر امریکا کم طاقتور دشمنوں سے بات چیت کر سکتا ہے۔

اوباما نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران کے ساتھ سفارت کاری کو موقع دیا جائے، اور اگر کانگریس کی طرف سے ایران کے خلاف نئی تعزیرات کے سلسلے میں کوئی قانون سازی کی گئی تو وہ اْسے ویٹو کردیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایران نے سمجھوتے کی پاسداری نہ کی، تو وہ خود اْس کے خلاف مزید پابندیاں لگانے میں پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔

صدر نے کہا کہ وہ ایک حکم نامہ جاری کرنے والے ہیں، جس کے ذریعے ملازمین کی کم سے کم اجرت 7.25 ڈالر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 10.10ڈالر فی گھنٹہ کی جائے گی جو دراصل، اْن متعدد منصوبوں میں شامل ہے، جو اْن کی رواں سال کی حکمتِ عملی کی ترجیحات میں شامل ہیں اور جن کی وہ ایوان نمائندگان سے منظوری حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ کانگریس پر اِس بات کے لیے بھی زور دیں گے کہ گذشتہ برس سینیٹ سے منظورہونے والی اِمیگریشن اصلاحات سے متعلق اقدام کرے۔

یہ قانون سازی ایوانِ نمائندگان کی سطح پر قدامت پسند قانون سازوں کی شدید مخالفت کے باعث تعطل کا شکار ہوگئی تھی، لیکن اب عندیہ مل رہا ہے کہ ری پبلکن قائدین کے ایوان میں اِس بِل کو حمایت حاصل ہو رہی ہے۔

ادھر، ملک اور عوام کی بہتری کے لیے ’مل کر کام کرنے‘ پر زور دیتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ وہ 2014ء کو عمل کے سال کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ کہ امریکیوں کی اکثریت بھی یہی کچھ چاہتی ہے۔

اْنھوں نے کہا کہ آئندہ مہینوں کے دوران 'ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم مل کر کیا پیش رفت حاصل کر سکتے ہیں'۔

اِس ضمن میں، صدر نے کہا کہ ایوانِ نمائندگان کے ارکان کو چاہیئے کہ وہ امریکی شہریوں کی زندگیوں، اْن کی توقعات اور خواہشات پر دھیان رکھیں۔

صدر نے کہا کہ وہ اِس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ نسل، علاقے اور پارٹی کی تفریق سے بالاتر ہو کر، اور اِس بات کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہ کون کم عمر یا عمر رسیدہ ہے امیر ہے یا غریب سب کو یکساں مواقع فراہم کرنے میں پختہ عقیدہ ہونا لازم ہے۔

صدراوباما نے زور دے کر کہا کہ ہم سب کا اِس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیئے کہ اگر آپ سخت محنت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ کو آگے بڑھنے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔

معیشت کے فروغ کے لیے کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے، صدر نے کہا کہ کساد بازاری کا معاملہ سنگین نتائج برآمد کرتا ہے۔

اوباما نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا کہ یکساں کام کے لیے مساوی اجرت کے حق کو تسلیم کیا جائے، کیونکہ، بقول اْن کے، جب ایک خاتون کامیاب ہوتی ہے، تو دراصل امریکی معاشرے کی جیت ہوتی ہے۔

بچوں کی تعلیم سے متعلق، اْن کا کہنا تھا کہ بندوبست کیا گیا ہے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم میسر ہو، اور تعلیم اور تربیت تک اْن کی رسائی یقینی بنائی جائے۔

اْنھوں نے اعلان کیا کہ نائب صدر جو بائیڈن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائی گی، جو امریکیوں کی بہتر تربیت اور بہتر روزگار کے مواقع کی فراہمی کا سبب بنے گی۔

امریکی صدر نے کہا کہ کسی بھی کام کے لئے بنیادی تحقیق بے انتہا اہمیت کی حامل ہے۔'جو قوم تحقیق میں پیچھے رہے گی، وہ ابتری کا شکار ہو جائے گی، اور امریکا ایسا نہیں کرسکتا'۔

اْنھوں نے کہا کہ قدرتی گیس کے ملکی ذخائر اور وسائل کو احتیاط سے کام میں لایا جارہا ہے۔

صاف شفاف توانائی کے ذرائع سے متعلق، اْن کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی پر اب بھی زور دیا جا رہا ہے اور یہ کہ ہر منٹ میں ایک امریکی گھر شمسی توانائی کا استعمال شروع کر رہا ہے۔

صدر اوباما نے معاشی تجزیہ کاروں کے حوالے سے کہا کہ امیگریشن اصلاحات سے اگلی دو دہائیوں میں بجٹ خسارہ کم ہوگا اور امریکی معیشت میں ایک کھرب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔

'اگر ہم معاشی ترقی کے لیے سنجیدہ ہیں، تو وقت آ چکا ہے کہ ہم کاروباری طبقے، مزدور رہنماوں، مذہبی رہنماوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطالبات پر توجہ دیں اور اپنے شکستہ امیگریشن نظام کی اصلاح کریں'۔

اپنے خطاب میں اوباما نے کانگریس کے نمائندگان اور تجارتی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ بے روزگاری کے طویل مدتی مسئلے کے حل میں ان کی مدد کریں۔

انھوں نے کانگریس سے اپیل کی کہ بے روزگاری انشورنس کو از سرنوبحال کریں۔ واضح رہے کہ 16 لاکھ افراد کے انشورنس حال ہی میں ختم کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں