تین ہزار چھ سو سے زیادہ ملازمین وفاق سے سندھ کو منتقل

01 فروری 2014
ملازمین کی اکثریت کو سندھ میں ایڈجسٹ کیے جانے کے بعد صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں اپنے حصے میں اضافے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ —. فائل فوٹو
ملازمین کی اکثریت کو سندھ میں ایڈجسٹ کیے جانے کے بعد صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں اپنے حصے میں اضافے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ —. فائل فوٹو

کراچی: مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) نے سترہ وفاقی وزارتوں اور محکموں کے ہزاروں ملازمین کو آئین کی اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں صوبوں کو منتقل کردیا ہے، اس سلسلے میں ضروری قانون سازی دس فروری کو کونسل کے اجلاس میں کی جائے گی۔

یہ ملازمین جن کا مستقبل فضا میں معلق ہوکر رہ گیا ہے، صوبوں میں ڈیپوٹیشن پر 1973ء کے سوِل سرونٹ ایکٹ کے رول 10-اے کے تحت کام کررہے تھے۔

اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں متوازی فہرستوں کو ختم کردیا گیا تھا اور بہت سی وزارتیں، محکمے اور تنظیمیں صوبوں کو منتقل کردی گئی تھیں۔

منتقلی کے اس عمل کا نفاذ جولائی 2010 سے شروع ہوا تھا اور اس کو تیس جون 2013ء تک مکمل ہونا تھا۔ تاہم ہزاروں ملازمین کی منتقلی کا یہ معاملہ حل نہیں کیا جاسکا تھا۔

ذرائع کے مطابق اگرچہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے 1973ء کے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس چوبیس مئی 2013ء کو جاری کیا تھا، جس کے تحت ایسے ملازمین اپنے متعلقہ صوبے کو ایک جیسی شرائط اور معینہ وقت پر منتقل کیے جانے تھے۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی مدتِ اقتدار کے بعد اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب وفاقی حکومت قانون سازی کے ذریعے اس عمل کو مکمل کرنا چاہتی ہے۔

کل تین ہزار چھ سو اٹھہتّرسرکاری ملازمین کو سندھ میں، ایک ہزار چار سو چوراسی کو پنجاب میں، نو سو چوراسی خیبر پختونخوا میں، دو سو اٹھہتّر کو بلوچستان میں، ایک سو چونتیس کو گلگت بلتستان میں، چالیس آزاد کشمیر میں اور دو ہزار آٹھ سوانہتّر کو وفاقی حکومت میں منتقل کردیا جائے گا۔

ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ملازمین کی اکثریت کو سندھ میں ایڈجسٹ کیے جانے کے بعد صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں اپنے حصے میں اضافے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری شاہد راشد کی جانب سے مشترکہ مفادات کی کونسل کو بھیجی گئی ایک سمری کے مطابق وفاقی کابینہ نے 2010ء اور 2011ء میں منعقد ہونے والے تین اجلاسوں کے دوران سترہ وزارتوں اور ڈویژنوں کو تین حصوں میں منتقل کرنے کی منظوری دی تھی۔

سترہ وزارتوں کو صوبوں میں منتقل کیے جانے کے بعد انہیں مرکز سے ختم کردیا جائے گا۔

ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے ملازمین کا تبادلہ بھی صوبوں اور ان کے خطوں میں کیا جانا تھا، جبکہ ایسے ملازمین جو فیڈرل ایریا میں کام کررہے تھے ان کو دیگر وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں میں ایڈجسٹ کیا جانا تھا۔

ڈان کی طرف سے لیے گئے مذکورہ سمری کے مندرجات کے جائزے کے مطابق ”اس حقیقت کے باوجود کہ صوبائی حکومتیں منتقلی کے اس پورے عمل کے ساتھ وابستہ رہی تھیں، قانون سازی کے مسودے کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔“

سمری میں کہا گیا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے نفاذ کے کمیشن (آئی سی) کے ماہرین کا نکتہ نظر تھا کہ ”ان ملازمین کی وزارتوں، ڈویژنوں اور صوبوں کو منتقلی کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کی خصوصی قانون سازی درکار ہوگی۔“

انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ قانون سازی کے دو مسودے تیار کیے تھے، جن پر آئی سی کے اجلاسوں میں بحث بھی کی گئی تھی، لیکن دونوں ہی کو حتمی صورت نہیں دی جاسکی تھی۔

ملازمین کی منتقلی کے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے ایک آرڈیننس چوبیس مئی 2013ء کو جاری کیا تھا، اور اس آرڈیننس کی شقوں میں دیے گئے حکم کے اثرات بھی مرتب ہوا، وفاقی حکومت نے ملازمین کی منتقلی کے عمل کا آغاز کردیا تھا۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ وفاقی سول سرونٹس کی صوبائی حکومتوں کو منتقلی کے اس عمل کو صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس لیے شروع نہیں کیا جاسکا ہے کہ صوبائی قوانین کو حتمی صورت نہیں دی جاسکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں