موئن جو دڑو تباہی کے دہانے پر

04 فروری 2014
اب سے پانچ ہزار قبل موئن جو دڑو کی گلیاں شہری اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنائی گئی تھیں۔ تصویر بشکریہ مصنف
اب سے پانچ ہزار قبل موئن جو دڑو کی گلیاں شہری اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنائی گئی تھیں۔ تصویر بشکریہ مصنف
موئن جو دڑو کا مرکزی اسٹوپا، جسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی اینٹیں بہت تیزی سے گر رہی ہیں۔ تصویر مصنف
موئن جو دڑو کا مرکزی اسٹوپا، جسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی اینٹیں بہت تیزی سے گر رہی ہیں۔ تصویر مصنف
موئن جو دڑو کا ایک اور منظر جس میں شکستہ دیواریں نظر آرہی ہیں۔ تصویر بشکریہ مصنف
موئن جو دڑو کا ایک اور منظر جس میں شکستہ دیواریں نظر آرہی ہیں۔ تصویر بشکریہ مصنف
موئن جو دڑو کا مرکزی اسٹوپا۔ تصویر سہیل سانگی
موئن جو دڑو کا مرکزی اسٹوپا۔ تصویر سہیل سانگی
موئن کو دڑو پر آنے والے سیاح، عقب میں مرکزی اسٹوپا نظر آرہا ہے۔ تصویر سہیل سانگی
موئن کو دڑو پر آنے والے سیاح، عقب میں مرکزی اسٹوپا نظر آرہا ہے۔ تصویر سہیل سانگی
دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ، موئن جو دڑو  کے مرکزی حمام کا ایک منظر ، نمک اور موسم کی شدت اینٹوں کو بھربھرا کرکے ختم کررہی ہے۔ تصویر بشکریہ مصنف
دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ، موئن جو دڑو کے مرکزی حمام کا ایک منظر ، نمک اور موسم کی شدت اینٹوں کو بھربھرا کرکے ختم کررہی ہے۔ تصویر بشکریہ مصنف

موئن جو دڑو پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اعلان کردہ سندھ فیسٹیول کے افتتاح کے بعد رائے عامہ کی جانب سے میڈیا پر تنقید کا راستہ کھل گیا ہے۔

صدیوں پرانے کھنڈرات میں جشن کے انعقاد کے خلاف کراچی اور لاڑکانہ سمیت بعض شہروں میں احتجاج بھی کیا گیا ہے اور این جی اوز نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔

اس جشن کے لیے موئن جو دڑو کے انتخاب پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اتنی بڑی تقریب کے انعقاد سے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثاروں کو ضرور نقصان پہنچے گا جو پہلے ہی بہت بری حالت میں ہے۔

کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ثقافت اور سندھ کے نام پر پیپلز پارٹی اپنے نئے چہرے بلاول بھٹو زرداری کو متعارف کرانا چاہتی ہے اور سندھ فیسٹیول کے نام پر اخبارات اور چینلز کو اشتہارات کی مد میں جیبیں بھی گرم کی گئ ہیں ۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بلاول بھٹو سے قبل سندھی میڈیا ہر سال ثقافت کا دن مناتے ہیں، جس میں بغیر سیاسی، سماجی اور مذہبی فرق کے تمام عوام شریک ہوتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے اعلانیہ جشن میں اس کی اپنی ہی سیاسی چھاپ رہی ۔

سندھی میڈیا میں بعض تجزیہ نگار سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی توجہ سندھ کی عوام میں غذائیت کی کمی، امن و امان، صحت اور تعلیم کی تباہ کن صورتحال کی طرف متوجہ کرا رہے ہیں، اس حوالے سے یونیسف اور اثر سروے کے حوالے دیئے جا رہے ہیں۔ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بنیادی مسائل کو ایک طرف رکھ کر ثقافت کو زندہ کرنے کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔

بلاول بھٹو ثقافتی پروگراموں کے ذریعے مذہبی انتہاپسندی کو روکنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن وہ کہیں بھی گڈ گورننس کی بات نہیں کرتے، اس لیے سوشل میڈیا پر بھی ان سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا تعلیم بغیر انتہا پسندی کی روک تھام ممکن ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں تعلیم کی تباہ حالی اور غربت نے بچوں کا رخ مدارس کی طرف کردیا ہے، سندھ میں بدامنی، اثر رسوخ نے انصاف کی نظام کو کمزور کردیا ہے جس وجہ سے اب لوگ اسلامی قوانین میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

یہاں ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ موئن جو دڑو کو جشن کی ضرورت تھی یا تحفظ کی۔پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثار اس دہانے پر جا پہنچے ہیں کہ یہ ایک بار پھر ہمیشہ کے لیے صف ہستی سے مٹ جائیں گے، شاید اسی وجہ سے ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری اور دیگر ماہر آثار قدیمہ کی رائے ہے کہ جب انہیں محفوظ نہیں بنایا جاسکتا تو دفن کردیا جائے۔

موئن جو دڑو اعلیٰ رہن سہن کا شاہکار بھی ہے۔ پختہ دیواروں، گلیاں باتھ روم، دو منزلہ مکانانت جن میں دو کمرے ایک دوسرے سے منسلک ، منظم فراہمی آب اور نکاسی کا انتظام، جو کہ بہت ہی تہذیب یافتہ شہری آبادی کا جیتا جاگتاثبوت ہے۔ مذہبی تقریبات کے اجتماعی غسل خانہ، اناج کا گودام، اسمبلی ہال، بڑے بڑے مکانات، گرڈ سسٹم روڈ سبھی کچھ موئن جو دڑو میں موجود ہیں۔

یونیسکو نے 1980 کے عشرے میں ان آثار کو عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ فن تعمیر اور شہری منصوبہ بندی کی اس انوکھی مثال کا کبھی جامع سروے بھی نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہوسکے کہ یہ شہر کتنے میل پر پھیلا ہوا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بمشکل دس فیصد حصے کی کھدائی کی گئی ہے۔ لہٰذا تاریخ کے کئی خزانے ابھی تک زمین میں مدفون ہیں۔ جرمن محقق مائیکل جانسن نے جان مارشل کی فیلڈ بک میں اس قدیم شہر سے برآمد ہونے والے تین ہزار نوادرات کا پتہ لگایا تھا جن میں سے بیشتر غائب ہیں۔ جو نوادرات میوزیم میں رکھے گئے تھے وہ بھی وہاں محفوظ نہیں کئی مہریں میوزیم کی دیوار توڑ کر چوری کرلی گئ ہیں۔

1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں اس عالمی ورثے کو بچانے کے لیے ملکی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 1974 میں یونیسکو کی مدد سے موئن جو دڑو بچانے کے لیے ماسٹر پلان بنایا گیا۔ ان آثار کی بچاؤمہم کو بعض سیاسی جوہات کی بنا پر بھی دھچکا لگا اور جنرل ضیاء الحق نے عالمی مہم روک دی۔ نواز شریف حکومت میں آئے تو انہوں نے موئن جو دڑو اتھارٹی ہی ختم کردی۔

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ حکمرانوں میں صرف ذوالفقار علی بھٹو زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، اسی لیے انہوں نے ایئرپورٹ بھی کھنڈرات کے قریب تعمیر کروایا تاکہ سیاح آسانی سے آئیں وہ خود بھی کئی سیاحوں کو اپنے ساتھ یہاں لاچکے تھے۔

جرمن اسکالر نے پاکستان کے حکام کی بے احتیاطی کو دیکھتے ہوئے چند برس پہلے کہا تھا کہ اگر اس بڑی دریافت کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو اس کی قیمت لگائیں، ایک ڈالر ایک اینٹ کے حساب سے ہم خرید یں گے۔ مقامی صحافی عبدالحق پیرزادو کا کہنا ہے نوے کے عشرے میں جاپانی حکومت نے تجویز دی تھی کہ دس برس تک یہ سائٹ ان کے حوالے کی جائے، وہ اس سائٹ کو شیشے سے ڈھانپ دیں گے اس سے یہ آثار بارشوں، سورج کی تپش اور ہوا وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت نے جاپان کی تجویز کو قبول کرنے کے بجائے فرمائش کی کہ یہ رقم اس کے حوالے کی جائے۔

وقفے وقفے سے موئن جو دڑو کا دورہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے ہر بار انہیں زیادہ افسوس ہوتا ہے زیر زمین آبی نمکیات اینٹوں کو کھا رہی ہیں۔ جو کھدائی سے پہلے مضبوط اور صیحح سلامت تھیں۔ ان دیواروں کو لکڑی کے پشتوں کے ذریعے کھڑا کیا ہوا۔ جو کہ زیادہ دن تک نہیں چل سکتے،شہر کے اوپر کے حصے میں دیواریں گر چکی ہیں دیگر دیواریں گرنے کے دہانے پر ہیں۔

زیرزمین پانی اور اس میں شامل نمکیات کے علاوہ بارشیں بھی دیواروں کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہیں جو صرف اوپر کی سطح پراثرانداز ہوتی اس کے علاوہ یہاں بارش کا پانی کھڑا بھی ہو جاتا ہے۔ 2010 کے سیلاب کے باعث بھی ان آثاروں کو نقصان پہنچا تھا۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد موئن جو دڑو سندھ حکومت کے پاس آگیا، اور صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا دوسرا دور جاری ہے لیکن جس پارٹی کا سربراہ ثقافت اور موئن جو دڑو بچانے کی باتیں کر رہا ہے اس کی صوبائی حکومت کے دوران گزشتہ دو برسوں میں موئن جو دڑو کی سالانہ مرمت بھی نہیں ہوئی، چند ملازمین اس کی جھاڑو لگا کر صفائی کرتے ہیں۔

ماہر آثار قدیمہ اسما ابراہیم مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی محکمے کے پاس نہ مہارت ہے اور نہ ہی جذبہ۔ جس تیزی سے چیزیں خراب ہو رہی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بمشکل اگلے بیس سال تک قائم رہ سکے۔ ان خیالات کا اٖظہار انہوں نے برطانوی اخبار، ' دی ٹیلی گراف' سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ۔ ٹیلی گراف نے ماہرین کے حوالے سے کہا تھا کہ موئن جو دڑو کے آثار اگلے بیس سال میں مکمل طور پر مٹ سکتے ہیں۔

اب حکام کے پاس دو ہی آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھیں، یا پھر اس کو ڈاکومنٹ کرکے واپس زمین میں دفن کردیں۔ اس صورتحال میں جشن ثقافت سیاست کو تو چمکا سکتا ہے، لیکن ان کھنڈرات کو نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Mahmood abro Feb 05, 2014 12:19pm
mere khayal me festival ki mukhalifat kye bina he, aasar ki hifazat k lye govt ko force karna chahye....
Murad Pandrani Feb 05, 2014 08:10pm
sohail saeen very good analysis regarding mohen jo darro.
A. Wahab Feb 07, 2014 08:51pm
بہت ہی عمدہ اور بروقت تحریر۔ ان کھنڈرات کو زیر زمین سیم اور غیر مناسب بحالیات سے خطرہ لاحق ہے۔ اس کی کئی دیواریں گر چکی ہیں۔ باقی اتہائی زبون حالت میں ہیں۔ عبدالحمید آخوند جو ثقافت کے صوبائی سیکریٹری رہ چکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ موئن جو دڑو بچانے کے نام پر ملکی خواہ غیر ملکی ماہرین نے تجربے زیادہ کئے جس سے ان آثار کو نقصان پہنچا۔ 2002 میں چالیس نوادرات چوری کرلیے گئے۔ پولیس اور انتظامیہ نہ ملزمان کو گرفتار کر سکی اور نہ یہ نوادرات برآمد کر سکی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ جانتی ہے کہ چوری کس نے کی۔ اور ملزمان کون ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزمان دبئی میں رہائش پزیر ہیں اور آج بھی بااثر لوگوں کی میزبانی کرتے رہتے ہیں۔ موئن جو دڑو کے نوادرات کی چوری بھی کی جاتی رہی ہے۔ روزانہ مقامی طور پر درجوں لوگ آتے ہیں۔ لیکن کوئی دیکھ بھال نہیں۔ سیاح کون کیا کر رہا ہے اس سے متعلقہ محکمہ کا کوئی تعلق نہیں۔ پابندی کے باوجود اعلیٰ افسران کی گاڑیان آثار کے قریب کھڑی کی جاتی ہیں۔ بائیس دسمبر جو ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کی فیملی موئن جو دڑو کے آثار دیکھنے آئی تھی۔ ان کی دو گاڑیاں اور اور ان کی سکیورٹی کے لیے پولیس کی دو گاڑیان آثار کے قریب لا کر پارک کی گئی تھیں۔