کوچ نہ بننے کا دکھ نہیں، وقار یونس
کراچی: سابق لیجنڈری فاسٹ باؤلر وقار یونس نے کہا ہے کہ انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کے لیے نظر انداز کیے جانے اور معین خان کو کوچ بنائے جانے کا کوئی دکھ نہیں۔
یاد رہے کہ ڈیو واٹمور کی جانب سے کوچنگ کا عہدہ چھوڑے جانے کے بعد 42 سالہ سابق فاسٹ باؤلر کو اس عہدے کے لیے سب سے مزید امیدوار تصور کیا جا رہا تھا تاہم گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے سابق کپتان اور وکٹ کیپر بلے باز معین خان کو ٹیم کا ہیڈ کوچ بنانے کا اعلان کیا۔
وقار یونس اس سے قبل بھی گرین شرٹس کی کوچنگ کے فرائض انجام دے چکے ہیں جہاں مارچ 2010 سے ستمبر 2011 تک انہوں نے بطور کوچ ایک کامیاب دور گزارا تھا۔
لیکن ماضی میں فاسٹ باؤلنگ کے باعث بلے بازوں کو دہشت زدہ کرنے والے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نے کہا کہ انہیں کوچ نہ بنائے جانے پر کوئی شکایت نہیں۔
انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک مشکل وقت ہے اور اس موقع پر رونے کے بجائے ہمیں نئے کوچ کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔
'میں کھلے دل سے اس فیصلے کو تسلیم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے ہمیں آگے آنا چاہیے جسے گزشتہ کچھ سالوں کے درمیان تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ستاسی ٹیسٹ اور 262 ایک روزہ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وقار نے کہا کہ کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے ملک پاکستان کے لیے گزشتہ 12 ماہ سے پی سی بی میں جاری اکھاڑ پچھاڑ کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کرکٹ بورڈ کو گزشتہ سال مئی سے شدید بحران کا سامنا ہے جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بورڈ میں ہونے والے انتخاب میں ذکا اشرف کے انتخاب پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں معطل کر دیا تھا۔
ذکا اشرف کی عہدے سے معطلی کے بعد سینئر صحافی نجم سیٹھی کو وقتی طور پر یہ منصب سونپا گیا تھا تاہم ذکا کی اپیل پر رواں سال جنوری میں عدالت نے انہیں دوبارہ عہدے پر بحال کر دیا تھا۔
لیکن پیر کو اس سلسلے میں نئی پیشرفت ہوئی جہاں بورڈ کے پیٹرن ان چیف وزیراعظم نواز شریف نے ذکا اشرف کو برطرف کرتے ہوئے سیٹھی کو دوبارہ تعینات کر دیا تھا۔
وقار یونس نے بورڈ میں جاری اس بحرانی کیفیت کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان معاملات سے پاکستان کرکٹ کو بہت نقصان پہنچا اور پاکستانی شائقین کے لیے صرف یہی کھیل باقی بچا ہے لہٰذا ہمیں اس کھیل کو بچانے کے لیے فوری طور پر درست اقدامات کرنے چاہئیں۔
سابق کپتان نے مطالبہ کیا کہ معین خان کو لمبا کنٹریکٹ دیا جائے۔
گزشتہ روز پریس کانفرنس میں پی سی بی کے سی ای او سبحان احمد نے کہا تھا کہ معین کو صرف ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے کوچنگ کی ذمے داریاں سونپی گئی ہیں۔
وقار نے کہا کہ کوچ کو صرف دو ماہ کے لیے ذمے داریاں سونپنا انتہائی غلط ہے اور میرا خیال کہ خود معین خان بھی اس مختصر مدت پر خوش نہیں ہوں گے کیونکہ کارکردگی میں استحکام کے لیے کوچ کو لمبی مدت درکار ہوتی ہے۔
پی سی بی کی کمیٹی نے کہا تھا کہ وہ ان دو دوروں کے بعد معین کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے کیونکہ اپریل کے بعد لمبے عرصے تک پاکستان کو کوئی اور میچ نہیں تاہم کوچ کے دورانیے میں توسیع کی جا سکتی ہے۔