اسلام آباد: پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے گزشتہ روز جمعرات کو بلوچستان بدامنی اور لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کردیا۔

جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت جب شروع کی تو عدالت نے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو طلب کیا، تاہم سیکریٹری داخلہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے عدالت حاضر نہ ہوسکے۔

عدالت میں موجود ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ دونوں سیکریٹری صاحبان لاپتہ افراد سے متعلق فارمیشن کمانڈرز اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ اجلاسوں میں مصروف ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالت ان افسران کو ہر صورت عدالت کے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔

سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم کے بعد ان افسران کو عدالت آنا پڑے گا۔

وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سیکریٹری دفاع عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے متعلقہ افسران کا اجلاس بُلا رکھا ہے اور مثبت پیش رفت کے لیے انہیں چند روز کی مہلت دی جائے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ سیکریٹری دفاع اور داخلہ کو اس لیے بلایا کہ یہ دونوں افسران ایجنسی اور پولیس کو کنٹرول کرتے ہیں، آپ دونوں نے فیصلہ کرنا ہے اس کیس میں ہماری معاونت کون کرے گا.

سیکریٹری دفاع نے کہا کہ عدالت کی جانب سے ہمارا مؤقف سمجھنے پر شکرگزار ہوں۔

اس دوران بینچ میں شامل جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ صرف سمجھنے کی بات نہیں انہتائی سنجیدہ معاملہ ہے، بین الاقوامی میڈیا سے لے کر ہر کوئی اس معاملے پر بات کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ یہ مقدمہ 2010ء سے عدالت میں زیر سماعت ہے اور اگر آرڈر شیٹ دیکھیں تو صرف یقین دہانیاں ہی نظر آتی ہے۔ اس مقدمے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔

سیکرٹری دفاع نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ لاپتہ افراد کی تعداد گیارہ سو سے کم ہو کر 88 رہ گئی ہے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ایک بھی شخص لاپتہ نہیں ہونا چاہئیے۔

سماعت کے موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور بھی موجود تھے جنہوں نے بتایا کہ اس کیس میں جن آرمی افسران پر الزامات ہیں وہ واپس فوج میں جا چکے ہیں۔

آرمی نے درخواست کی ہے کہ وہ ان افسران کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانا چاہتی ہے.

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں لاپتہ افراد کے کوائف معلوم کرنا چاہتے ہیں، اس کیس میں آرمی افسران کے نام آئے اور یہ معلوم نہیں کہ اب وہ کہاں پر تعینات ہیں، سیکریٹری دفاع کو اس لیے بلایا ہے کہ وہ ان افسران کو تلاش کریں، تاکہ ان افسران سے تحقیقات ہو سکیں.

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اگر آرمی کو یقین ہے کہ انہوں نے کچھ کیا ہے تو آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی بے شک کرتے رہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ عدالت نے بلوچستان بدامنی میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت 20 فروری تک ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں