چھیاسٹھ سال، 28 چیئرمین اور پی سی بی

شائع February 21, 2014
فائل فوٹو
فائل فوٹو

چھیاسٹھ سال، 28 چیئرمین اور متعدد تنازعات کے باوجود کرکٹ کے دیوانے ملک پاکستان میں اس کھیل کو چلانے کے طریقہ کار کے حوالے سے کشمکش جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نواز شریف نے چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف کو برطرف کر دیا تھا۔یہ اس سال دوسرا موقع تھا جب انہیں اس عہدے سے ہٹایا گیا۔

ان کی جگہ وزیر اعظم نے سینئر صحافی نجم سیٹھی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آئین کی تشکیل کا حکم دیا تھا جس کے بعد پہلی بار صحیح معنوں میں کرکٹ بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا جائے گا۔

تاہم ناقدین نے اسے کرکٹ میں سیاسی مداخلت سے تعبیر کیا ہے جہاں ایک عرصے سے سیاسی رہنما چیئرمین کے اہم منصب پر اپنے حمایتی افراد کو تعینات کرتے آئے ہیں۔

کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر سراج الاسلام بخاری نے کہا کہ سیاسی شخصیت کی تعیناتی انتہائی غلط ہے اور پاکستان حکمت عملی ترتیب دینے میں ناکام رہا۔

اس روایت کی داغ بیل 1962 میں سابق فوجی آمر ایوب خان نے ڈالی جس کے بعد صدور نے کرکٹ سربراہ تعینات کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس اعلیٰ عہدے پر فوجی جرنیلوں، ججوں، تاجروں، سابق کھلاڑیوں اور سیاست دانوں کی تعیناتی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔

ماضی میں 1984- 88 تک پی سی بی سربراہ کے فرائض انجام دینے والے موجودہ لیفٹننٹ جنرل نے سوال کیا کہ بورڈ تمام ہی کھلاڑیوں کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ کیوں نہیں دیتا؟

کوئی پوچھ گچھ نہیں؟

متعدد سابق کھلاڑیوں اور ماہرین پی سی بی میں بغیر کسی سیاسی مداخلت کے کسی قابل شخص کو شفاف الیکشن کے ذریعے بورڈ کا سربراہ مقرر دیکھنا چاہتے ہیں۔

سیٹھی نے اپنی تعیناتی کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں اس پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیا آئین تشکیل دے کر پاکستان کرکٹ کے وقار کی بحالی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

لیکن پاکستان کو 1992 میں ایک روزہ کرکٹ کا واحد ورلڈ کپ جتوانے والے سابق کپتان عمران خان نے سیٹھی کی ترقی کو مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں نواز شریف سے وفاداری پر نوازا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کسی ایسے شخص سے کیسے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں جو صدر کا آدمی ہو؟، یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے بورڈ کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر نہیں چلایا جا سکا۔

بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی کرکٹ سربراہ حکمران جماعت مقرر کرتی ہے لیکن کرکٹ کی اہم طاقتوں جیسے ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ میں مقامی ایسوسی ایشن کے ارکان صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔

سابق چیرمین پی سی بی عارف عباسی نے کہا کہ حکومتی مداخلت پر پاکستان کی آئی سی سی میں رکنیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کرکٹ میں بیرونی مداخلت کے حوالے سے آئی سی سی پاکستان کو پہلے ہی دو سے تین وارننگ دے چکا ہے۔

' مجھے خطرہ ہے کہ آئی سی سی پاکستان کی رکنیت معطل کر دے گا، اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہو گی کیونکہ ہم آئی سی سی کے اہم رکن ہیں۔'

مارچ 2009، لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے اور اس باعث پاکستان میں عالمی کرکٹ کے دروازے بند ہونے کے بعد کرکٹ کی عالمی گورننگ باڈی نے مجوزہ تبدیلیوں کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔

ان میں سے ایک تجویز کرکٹ سے سیاسی مداخلت کے خاتمے کے حوالے سے تھی، تاہم پی سی بی نے اسے مسترد کرتے ہوئے ناقابل عمل قرار دیا تھا۔

گزشتہ سال متعدد عدالتی مقدمات کے باعث کھیل کے معاملات مزید سنگین صورت اختیار کر گئے تھے۔

اس دوران 114 میں سے 33 کرکٹ ایسوسی ایشنز قانونی معاملات کی زد میں آئیں جن میں سے کچھ براہ راست پی سی بی جبکہ بقیہ مشکوک انتخابات اور دیگر معاملات کے حوالے سے تھے۔

گزشتہ مئی میں پہلی بار شروع ہونے والے مقدمے کے نتیجے میں سابق چیئرمین پی سی بی اپنے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

انہوں نے بورڈ کے سابقہ پیٹرن آصف علی زرداری کی منظوری سے پی سی بی کے آئین میں ترامیم کیں اور اس کی بدولت چار رکنی کمیٹی کی جانب سے نامزد کرنے پر چیئرمین منتخب ہوئے۔

تاہم اسے فوری طور پر قانونی طور پر چیلنج کیا گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں معطل کرتے ہوئے قرار دیا کہ صدر کی جگہ ملک کا وزیر اعظم پیٹرن انچیف ہو گا۔

کرکٹ معاملات پر گہری نظر رکھنے والے معروف مصنف عثمان سمیع الدین نے معاملے کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑی ستم ظریقی ہے کہ بورڈ کو سیاست سے پاک کرنے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ نے یقینی بنایا کہ پاکستان میں بورڈ میں سیاسی مداخلت کی کھڑکی کھلی رہے۔

عثمان نے کہا کہ آپ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے لیکن اب یہ باقاعدہ طور پر لاگو کر دیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 29 جون 2025
کارٹون : 28 جون 2025