پی آئی اے کی بحالی کے لیے منصوبے کی منظوری

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2014
وزیراعظم کے منظور شدہ منصوبے کے تحت پی آئی اے کے بیڑے میں نئے جہاز شامل کیے جائیں گے۔ —. فائل فوٹو
وزیراعظم کے منظور شدہ منصوبے کے تحت پی آئی اے کے بیڑے میں نئے جہاز شامل کیے جائیں گے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے اصولی بنیادوں پر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی بحالی کے لیے ایک منصوبے کی منظوری دے دی ہے، قومی پرچم بردار ایئرلائن جو اس وقت اربوں روپے کے خسارے میں چل رہی ہے، کے اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کرکے اس خسارے کو کم کیا جائے گا۔

اس منصوبے کے تحت نئی جنریشن کے نیرو باڈی اور کم ایندھن خرچ کرنے والے ایئربس 320 اور بوئنگ 737 طیارے ترجیحی بنیادوں پر پی آئی اے کے بیڑے میں شامل کیے جائیں گے۔اس کے علاوہ چار بوئنگ 777 اور اتنی ہی تعداد میں اے ٹی آر 72-500 ایئرکرافٹ پٹے پر حاصل کیے جارہے ہیں۔

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے، جب ہر ایک کی توجہ پی آئی اے کی نجکاری پر مرکوز تھی۔

حکومت انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو تحریری طور پر یہ یقین دہانی کراچکی ہے کہ پی آئی اے کے چھبیس فیصد شیئرز اس سال کے آخر تک فروخت کردیے جائیں گے۔

جب ایک اہلکار سے پوچھا گیا کہ کیا پی آئی اے میں بھاری سرمایہ کاری کا یہ مطلب نہیں کہ اس سرکاری ایئرلائن کی نجکاری کا منصوبہ تبدیل کردیا گیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی تنظیم نو اور نجکاری دونوں ساتھ ساتھ چلیں گے۔

اتوار کو اصلاحات اور تنظیم نو کے منصوبوں بشمول اسٹریٹیجک شراکت داری کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ کئی سالوں سے سرکاری اداروں میں بدانتظامی اور بنیادی نااہلیوں نے ان اداروں کے نظم و نسق کو متاثر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’سرکاری اداروں میں غیرمعینہ مدت تک مسلسل وسائل فراہم کرتے رہنا مالی طور پر پائیدار عمل نہیں ہے، اور سب سے زیادہ قابل عمل اور دستیاب آپشن یہی ہے کہ چھبیس فیصد شیئرز کی فروخت کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کے ذریعے ان کی تعمیر کی جائے۔‘‘

وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے امورِ ہوابازی شجاعت عظیم نے اس اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ تین جہاز لیز پر حاصل کرلیے گئے تھے، جبکہ نیرو باڈی والے دس ایئرکرافٹ کے لیے ٹینڈر جاری کردیے گئے ہیں، جنہیں سات مارچ کو کھولا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں سات مزید جہاز بھی شامل کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بیڑے میں شامل کیے جانے والے نئے طیاروں سے توقع ہے کہ پچاسی فیصد نشست اور ساڑھے بارہ گھنٹوں کے روزانہ استعمال کی بنیاد پر 72 ارب روپے کا سالانہ منافع حاصل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے بیڑے میں موجود 34 ایئر کرافٹ میں سے 24 قابل استعمال ہیں۔ اس بیڑے میں چھبیس سال پُرانے بوئنگ 747 اور 737 اور بارہ سے بیس سال پرانے ایئربس اے310 طیارے شامل ہیں۔ بیڑے کی اوسط عمر لگ بھگ سترہ برس ہے۔

شجاعت عظیم نے بتایا کہ بین الاقوامی ایئرلائنوں میں بیڑے کی اوسط عمر دس سال سے کم ہوتی ہے۔

بیڑے میں نئے جہازوں کی شمولیت کے بعد چار بوئنگ 747 اور بارہ ایئر بس ایئرکرافٹ کی فروخت بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بیڑے میں شامل جہاز درمیانے اور طویل فاصلے کے روٹس کے لیے ہیں، جبکہ 62 فیصد مسافر مختصر روٹس پر سفر کرتے ہیں۔ موزوں طیاروں کی شمولیت سے ایندھن کےاخراجات میں کمی آئے گی۔

شجاعت عظیم نے کہا کہ مختصر فاصلے کے روٹس پر استعمال کیے جانے والے طیاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے 777 ایئر کرافٹ کا غلط طور پر استعمال کیا جارہا ہے، جس کے انجن کی مرمت پر خاصی بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک انجن کی مرمت پر 80 لاکھ ڈالرز خرچ ہوتے ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ حکمت عملی کی تبدیلی سے بھی اس ایئرلائن کی تنظیم نو اور اسٹریٹیجک بزنس یونٹس کی تشکیل میں مدد ملے گی ۔

پی آئی اے کے مسافروں کی 16 فیصد تعداد طویل فاصلے کی پروازوں میں سفر کرتی ہے، ان میں برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور یورپ کے دیگر ممالک شامل ہیں۔ درمیانے فاصلے کے روٹس کی پروازوں کو بائیس فیصد مسافر استعمال کرتے ہیں، جن میں سعودی عرب اور مشرق بعید شامل ہیں۔ مسافروں کی سب سے بڑی تعداد خلیج عرب کی ریاستوں، علاقائی روٹس اور ملکی روٹس پر آتی جاتی ہے۔

شجاعت عظیم نے بتایا کہ پرانے اے-310جہازوں میں ایندھن پر ساڑھے پانچ ہزار ڈالر فی گھنٹہ خرچ ہوتے ہیں، جبکہ نئے 737 900ای آر میں ایندھن کا خرچ ڈھائی ہزار ڈالرز سے دو ہزار چھ سو ڈالرز رہ جائے گا۔ اپنے بیڑے میں نئے جہازوں کی شمولیت کے بعد پی آئی اے کا ارادہ ہے کہ 777 ایئر کرافٹ طیاروں کو طویل فاصلے کے روٹس کے لیے، اے-320، 232 جہازوں کو درمیانے فاصلے کے روٹس پر اور اے –320، 737-این جی اور اے ٹی آر جہازوں کو ڈومیسٹک، خلیج عرب کی ریاستوں اور علاقائی روٹس پر استعمال کرے گی۔

نقصانات کی کمی کے لیے کیے جانے والے دیگر اقدامات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہوائی جہازوں کے پارٹس اوریجنل مینوفیکچرز سے حاصل کیا جائیں گے، تمام آف لائن اسٹیشن بند کردیے جائیں گے، تمام جنرل سیلز ایجنٹوں کی کارکردگی کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے گا اور مفت سیٹ کی فراہمی اور اضافی سامان کے چلن کو روک دیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ انیس ہزار چار سو اٹھارہ ملازمین کے ساتھ پی آئی اے دنیا بھر کی ایئرلائنز میں سب سے زیادہ ملازمین والی ایئرلائن کا درجہ رکھتی ہے۔

جب پی آئی اے کے پینتیس سے زیادہ ملازمین کو ہر ماہ دس لاکھ روپے سے زیادہ تنخوا دینے کی رپورٹوں کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو شجاعت عظیم نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جانبداری اور اقراباء پروری کو ترک کرتے ہوئے پی آئی اے کی کارکردگی کا آڈت بین الاقوامی ادارے کے ذریعے کروایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ سابقہ بورڈ ممبروں اور ان کے خاندان اور چیئرمین تک کے لیے مفت سفر سمیت تمام مراعات ختم کردی گئی ہیں۔ ’’وہ دن گئے جب وہ مفت ٹکٹ اور بیرون ملک پی آئی اے کے ہوٹلوں میں مفت قیام کی عیاشی کی جاتی تھی۔‘‘

شجاعت عظیم نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی توسیع کے منصوبے کی منظوری دے دی تھی۔

لاہور اور اسلام آباد کے ایئرپورٹوں کے ڈیپارچرز لاؤنجز میں ملکوں کی تعداد میں اضافے اور مسافر دوست امیگریشن سسٹم کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ کو فتح جنگ سے روات میں منتقل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ’’تقریباً 69 ارب روپے پہلے ہی اس نئے ایئرپورٹ پر خرچ کیے جاچکے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم یہ حکم دے چکے ہیں کہ موٹروے نئے ایئرپورٹ تک براہ راست پہنچنے کے لیے ایک نیا راستہ جو نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے نہ گزرتا ہو، تعمیر کیا جائے۔

جب تک یہ نیا ایئرپورٹ 2016ء کے آخر تک مکمل ہوگا، بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ چند مہینوں میں ایک اہم رن وے کے ساتھ ایک اضافی رن وے سے منسلک ایک ٹیکسی وے تیار ہوجائے گا۔ انتظار گاہ کے اندر دکانوں کو عمارت کے باہر منتقل کیا جائے گا۔

کراچی ایئرپورٹ پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے تمام ایئرلائنز کو نوٹس دیا ہے کہ وہ اپنے کاٹھ کباڑ ہٹا کر جگہ کو صاف کریں۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ایک قومی ایوی ایشن پالیسی کا اپریل میں اعلان کریں گے اور بین الاقوامی ماہرین کی ایک کانفرنس اس ماہ اسلام آباد میں منعقد کی جائے گی۔

شجاعت عظیم نے اس بات کا اشارہ دیا کہ ایئرلائن کے لائسنس حاصل کرنے کے قوانین میں تبدیلی کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں