نمک کا شہر کھیوڑہ، تاریخی و معدنی ورثہ

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2014
کھیوڑہ کی کان میں ایک مزدور نمک نکالنے میں مصروف ہے۔ فائل تصویر
کھیوڑہ کی کان میں ایک مزدور نمک نکالنے میں مصروف ہے۔ فائل تصویر
نمک کے پتھروں سے بنی ایک مسجد۔ تصویربشکریہ وکی میڈیا کامنز
نمک کے پتھروں سے بنی ایک مسجد۔ تصویربشکریہ وکی میڈیا کامنز

کروڑوں سال پرانے کیمبرین عہد کے حجری آثار سنبھالے دُنیا کے دُوسرے بڑے نمک کے ذخیرے کی لمبائی تین سو کلومیٹر اور چوڑائی آٹھ سو تیس کلومیٹر تک ہے۔ یہ بائیس سو فٹ سے 4990 فٹ تک اُونچا نمک کا ایک عظیم ذخیرہ ہے جہاں ابھی تک 2 کروڑ 13 لاکھ ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔

کھیوڑہ نمک کی کانوں کو ارضیاتی عجائب گھر قرار دیا گیا ہے۔ اس کی موجودہ پیداوار 3,70,000 ٹن سالانہ ہے یعنی یہاں پر تقریباً اگلے 60 سال کے لیے نمک موجود ہے۔ جس میں سے تقریباً 2 لاکھ ٹن سالانہ صرف آئی سی آئی کو دیا جاتا ہے۔ باقی ماندہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد بھارت سمیت دُوسرے ممالک کو بھیج دیا جاتا ہے۔

ضلع جہلم میں واقع کھیوڑہ سالٹ مائن اسلام آباد سے تقریباً 165 کلومیٹر اور لاہور سے 245 کلومیٹر دُور ہے۔ کوہستان نمک کا یہ سلسلہ بیگن والا (جہلم) سے کالا باغ تک ہے۔

کھیوڑہ میں نمک کی دریافت آج سے تقریباً 2340 سال قبل اُس وقت ہوئی جب سکندر اعظم ٹیکسلا کے راستے سے ہوتا ہوا دریائے جہلم کے کنارے پہنچا۔

راجہ پورس اپنی فوج اور ہاتھیوں کے ساتھ اُس کا منتظر تھا۔ دونوں افواج کے بیمار گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے پائے گئے جس سے یہاں پر نمک کی موجودگی کا انکشاف ہوا اور تب سے یہاں پر نمک نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

برصغیر پر برٹش راج سے قبل یہ کانیں جنجوعہ راجاؤں کے زیرِ تسلط تھیں۔ سائنسی بنیادوں پر یہاں سے نمک نکالنے کا کام 1849ء میں شروع کیا گیا۔ 1872ء کے برٹش دور میں مائننگ انجینئر ڈاکٹر وارتھ نے یہاں سطح زمین پر بڑی کان کھدوائی جو آج بھی فعال ہے۔ اس وقت سترہ منزلوں سے نمک نکالا جا رہا ہے تاہم سیاحوں کی رسائی تقریباً دو کلومیٹر لمبی صرف ایک منزل تک ہی محدود ہے۔ برٹش راج کے دوران 12 مارچ 1930ء کو موہن داس کرم چند گاندھی نے برطانوی قبضے کے خلاف اپنا چوبیس روزہ مشہور ’’نمک مارچ‘‘ بھی کیا تھا جس کے خاتمے پر انہوں نے نمک ہاتھ میں اُٹھا کر کہا تھا کہ ’’میں نے صرف اس نمک کے لیے مارچ کیا ہے کیونکہ نمک ہمارا ہے مگر اس پر قبضہ برطانوی حکومت کا ہے‘‘۔

آج برصغیر پاک و ہند رہا ہے اور نہ ہی برطانوی راج مگر نمک کی اہمیت وہی ہے۔ آج یہ نمک پاکستان اور اس کے باسیوں کا ہے مگر صرف چھ مزید عشروں کا نمک موجود ہونے کے باوجود نہ تو اس کی ایکسپورٹ پر پابندی لگائی جا سکی ہے اور نہ ہی حکومت نے اسے کلی طور پر اپنے اختیار میں رکھنے کا انتظام کیا ہے، شاید اپنے معدنی وسائل کا خاتمہ ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہے اور اسی لیے یہاں سے نمک نکالنے، سیاحت کی بہتری اور ہونے والی آمدنی کا ذمہ ایک خود مختار ادارے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PMDC) کے پاس ہے۔

نمک جیسا غذائی اور صنعتی جز، تقریباً اڑھائی لاکھ سالانہ سیاحوں کی آمد، ارضیاتی عجائب گھر اور تقریباً ڈھائی ہزار سالہ تاریخ بھی ہمارے حکمرانوں کو متاثر نہیں کر سکی کہ وہ اس اہم مقام کو کلی طور پر قومی ادارہ بنا کر اس کی بہتری کے لیے اقدامات کریں۔

گو پی ایم ڈی سی نے یہاں پر سیاحوں کی بہتری اور دیگر نوع کے ضروری اقدامات کیے ہیں مگر ’’وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘‘۔ کھیوڑہ شہر میں سرکاری گیسٹ ہاؤس 1876ء، ریلوے اسٹیشن 1890ء، سینٹ جان چرچ 1899ء، امپیریل کیمیکل انڈسٹریز (ICI) 1938ء اور کوٹ منگل سین سکول 1946ء بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔

1916ء میں یہاں کان سے باہر نمک نکالنے کے اوزاروں کو بنانے اور مرمت وغیرہ کے لیے ایک ورکشاپ (لوہار خانہ) قائم کی گئی تھی، جس کی قدیم خوبصورت عمارت عدم توجہ کے باعث خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہے اور دیگر نوادر کھلے آسمان تلے ہونے کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں۔

اس جگہ پر 20 لاکھ روپے کی لاگت سے میوزیم بنانے کا منصوبہ کافی عرصہ سے التوا کا شکار ہے۔ حکومت کی طرف سے گرانٹ ملنے میں تاخیر اس کا سبب بتایا جاتا ہے۔ 2 مارچ 2013ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا تھا۔

حکومت اور PMDC شاید سو سال پورے ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس قیمتی ورثے پر کام کیا جا سکے۔ پاور ہاؤس، چکی اور شوٹ کی عمارتیں اور اُن میں موجود قیمتی سامان بھی ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔

سیاحتی نقطہ نظر سے یہ پُرکشش مقام ہے مگر ناکافی سہولیات کے باعث جو سیاح ایک بار یہاں آئے دوبارہ نہیں آتا۔ کان کے اندر کا درجہ حرارت ہر موسم میں یکساں طور پر 18 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔

کان کے اندر داخل ہوں تو نیم روشن طویل سرنگ میں آپ کی آنکھوں کو اندھیرے سے ہم آہنگ ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے باعث اور جنریٹر کی موجودگی کے باوجود نیم اندھیری کان سیاح پر ابتدا میں ہی کوئی خوشگوار تاثر قائم نہیں کر سکتی۔

موٹے چوہوں کی بہتات اس پر مزید ستم ڈھاتی ہے۔ تاہم خوشگوار پہلو یہ ہے کہ اس ماحول میں دیگر حشرات الارض پرورش نہیں پا سکتے۔ جوں جوں آگے بڑھتے جائیں نہ صرف اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قدرتی کرشمے، سینکڑوں فٹ گہرے کھارے پانی کے تالاب، قوس و قزح کے رنگ بکھیرتی دیواریں، مینار پاکستان، اسمبلی ہال، شیش محل اور چاغی ہل کے ماڈل، کرسٹل پیلس، نمک کی مسجد، نمک کے پُل، خالص سوڈیم کلورائیڈ کی قلمی حالت اور تالابوں میں چھتوں کے عکس کا نظارہ آپ کو دنگ کر دیتا ہے۔

پرانے زمانے میں نمک کو بارود سے اُڑانے کے لیے استعمال ہونے والی توپ بھی کان کے اندر موجود ہے اور دمہ کے مریضوں کے لیے ایک ہاسپٹل بھی یہاں قائم کیا گیا ہے جہاں معلومات کی کمی کے باعث مریضوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہاں موجود مسائل میں بجلی کی تاروں کا لٹکنا، برائے نام سیکورٹی، موبائل سروس معطل ہونا، ریسکیو سروس کی عدم موجودگی، آگ بجھانے کے آلات نہ ہونا، کچرا پھینکنے اور دیواروں پر اشتہارات لگانے کی کھلی چھٹی ہونا اور حفاظتی تدابیر کے بورڈز کا نہ لکھا ہونا وغیرہ اہم ہیں۔ مائن کے اندر حادثے کی ذمہ داری بھی PMDC قبول نہیں کرتی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے دیگر ملکی مسائل کی طرح سیاحت کے معاملے کو حل کرنے میں بھی سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ پاکستان قدرتی طور پر ایسے خطے میں ہے جہاں چاروں موسم، بلند پہاڑ، صحرا، جنگل، دریا، سمندر اور سب کچھ موجود ہیں اور یہاں سیاحوں کی کشش کے تمام لوازمات بھی موجود ہیں مگر قیام پاکستان کے بعد سے آج تک کھیوڑہ ہی نہیں بلکہ دیگر تمام سیاحتی اور تاریخی مقامات ہماری توجہ کے منتظر رہے ہیں۔

علی خان کی تحریر

تبصرے (0) بند ہیں