جس کی لاٹھی اس کی بھینس

24 مارچ 2014
روس کا موقف یہ ہے کہ کریمیا کے عوام اپنی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنے میں با اختیار ہیں.
روس کا موقف یہ ہے کہ کریمیا کے عوام اپنی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنے میں با اختیار ہیں.

سوویت یونین ایک نظریے کا علمبردار ہی نہیں بلکہ دنیا میں طاقت کے توازن کی علامت بھی تھا اور پھر اقوام عالم نے یہ بھی دیکھا کہ سوویت یونین کے ختم ہوتے ہی امریکہ نے اپنی چودھراہٹ کا اعلان کر ڈالا اور اقوام متحدہ کے خوش نما تصور کے جھوٹ میں تمام قوموں کو لگا کر اپنے مقاصد کے حصول میں سیکورٹی کونسل کی قراردوں کو بھی پامال کرنے سے گریز نہیں کیا، جس سے یہ مفروضہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی اصول ہے اور وہ ہے 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس'.

سوویت یونین کے انہدام سے بھینسوں کا ریوڑ ایک ہی گوالے کی گڑویاں بھرنے پر مامور ہے. اور ہم نے بھی چند ارب ڈالر کے عوض دنیا میں طاقت کے اس توازن کو ایک طرف جھکانے میں اپنا کالا کردار ادا کیا تھا. آج تو خیر یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام کے نام پر افغانستان میں جو کھیل کھیلا گیا تھا اس کے نتیجے میں آج تک کا خون خرابہ، خطے میں عدم استحکام، دنیا میں طاقت کا ارتکاز اور لگے ہاتھوں اپنا سماجی، ثقافتی اور سیاسی بیڑا بھی غرق کرنے کا تاج اگر کسی قوم کے سر پر سجا ہے تو وہ ہم پاکستانی ہیں.

ہماری حماقتوں کی فہرست تو بہت طویل ہے مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں جو کچھ سوویت دور میں ہوا اگر اسکا تقابلی جائزہ اس دور کے بعد کے حالت سے کیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ دور ہی زیادہ بہتر تھا. دنیا کا بھلا سوویت یونین کی شکل میں ایک متبادل طاقت کی صورت ہی میں تھا!

سوویت انہدام کے بعد میں وجود انے والی ریاستوں میں سے ایک ملک یوکرائن بھی ہے جس کے حالات نے آج کل روس اور امریکہ کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے. یوکرائن کی ایک نیم خودمختار ریاست کریمیا کی آبادی کا تقریباً 58 فیصد روسی نژاد باشندوں پر مشتمل ہے.

یوکرائن کے صدر وکٹر یانکوچ جو اپنے ملک میں روس نواز سمجھے جاتے تھے انکے مواخذے پر سوالیہ نشان موجود ہے کیوں کہ یوکرینی آئین کے مطابق مواخذے کے لئے مطلوبہ ووٹ 338 ہیں.

خیر اسکے بعد ملک کے حالات تیزی سے خراب ہونا شروع ہوۓ، لیکن کریمیا جو روس کے بلیک سی بحری بیڑے کا اڈا بھی ہے وہاں کی عوام نے یوکرائن کے خلاف علم بغاوت اس وقت بلند کیا جب یوکرائن کی عبوری حکومت نے یوکرائنی زبان کے علاوہ دیگر تمام زبانوں کی سرکاری حیثیت ختم کر دی، بشمول روسی زبان کے.

کریمین پارلیمنٹ نے ایک طرف تو یوکرائن سے آزادی کا اعلان کر دیا جسکی تصدیق ایک ریفرنڈم کے ذریعہ ہونا قرار پائی تو دوسری طرف روس نواز مسلح دستوں نے ریاست کی اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا.

یوکرائن، امریکا اور یورپی یونین سمیت اکثر کا کہنا یہ تھا کہ یہ روسی فوج کے اہلکار ہیں. کریمیا کے اس اقدام کی امریکا اور اسکے حواریوں نے کھل کے مذمت کی لیکن روس نے بھی اس مرتبہ جمہوریت اور حق خود ارادی کی اس تعریف کو اپنایا جس کے تحت امریکا دنیا بھر میں اپنی من مانی کر رہا ہے جہاں ملکوں پر فوجیں چڑھا دی جاتی ہیں اور قوموں کے اندر پھوٹ دلوا کر اقوام متحدہ کی ربڑ سٹیمپ سے ملکوں کو توڑا جاتا ہے.

روس کا موقف یہ ہے کہ کریمیا کے عوام اپنی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرنے میں با اختیار ہیں. مغربی میڈیا نے بھی اس ریفرنڈم کو اس انداز میں پیش کیا جس سے صاف واضح ہو گیا کہ اس کٹھ پتلی کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں. اس ریفرنڈم میں روس کے ساتھ الحاق کرنےhttp://www.bbc.com/news/world-europe-26606097 کے حق میں 95 فیصد سے زائد ووٹرز نے اقرار کیا اب اسی ہفتے کے دوران کریمیا کے اس فیصلے پر روسی پارلیمنٹ اپنا فیصلہ دینے کے لئے بیٹھنے والی ہے.

دوسری طرف امریکا نے کریمیا اور روس کے چند لوگوں پر پابندیاں http://www.theguardian.com/world/2014/mar/17/us-eu-sanctions-russia-ukraine-crimea-referendum عائد کر کے تمام مسئلے کے مستقبل کو واضح کر دیا ہے اور جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ یہ مسئلہ ایک نئی سرد جنگ کو جنم دے گا انھیں ان خیالات سے اب منہ موڑ لینا چاہیے.

اول تو آج کل کی دنیا میں جب اس طرح کے مسئلے میں دو مضبوط قومیں آمنے سامنے آ جائیں تو معامله دب ہی جاتا ہے کیوں کہ آج کل ہر ملک کے دوسرے کے ساتھ اقتصادی روابط موجود ہیں اور یورپی یونین کی تقریباً 30 فیصد گیس کی سپلائی بھی روس سے ہی جاتی ہےhttp://www.theguardian.com/world/2014/mar/03/europes-gas-supply-ukraine-crisis-russsia-pipelines اور اس سپلائی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا عندیہhttp://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/europe/russia/10684333/Putin-mocks-the-West-and-threatens-to-turn-off-gas-supplies.html بھی سامنے آ چکا ہے.

کریمیا کے معاملے میں یورپ ایک خاص حد سے زیادہ آگے نہیں جا سکتا اور شائد اسی لئے امریکہ کی جانب سے جو پابندیاں سامنے آئی ہیں ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی. شائد ہم ایک نئی سرد جنگ تو نہ دیکھ سکیں لیکن پھر بھی یورپ اور امریکا کے لئے اس تنازع میں سبق موجود ہیں کہ کبھی کبھار انکے اپنے بنائے ہوے ڈھول انکے گلے بھی پڑ سکتے ہیں اس لئے اصولوں کو توڑنا مروڑنا چھوڑ دیں.

تبصرے (0) بند ہیں