کم عمری کی شادیاں

27 مارچ 2014
نظریاتی کونسل کے مقابلے پر پارلیمنٹ کا اہم قدم، قانون سخت کرنے کا ترمیمی بل پیش۔  فائل فوٹو۔۔۔۔
نظریاتی کونسل کے مقابلے پر پارلیمنٹ کا اہم قدم، قانون سخت کرنے کا ترمیمی بل پیش۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

یہ سچ ہے کہ اکثر ناکافی اقدامات دیکھے جاتے رہے لیکن حالیہ مہینوں کے دوران قدامت پسندوں کے بھرپور شور و غوغا کے سلسلہ وار واقعات کا مقابلہ کرنے کے لیے، پارلیمنٹ کا یہ قدم، خاص طور پر واقعی اہم ہے۔ پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے ترمیمی بِل منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔

یہ مثبت کوشش، اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے قانون کو غیراسلامی قرار دیے جانے کے حالیہ اعلان کو پیچھے دھکیلتی ہے۔

بِل کا مقصد سن اُنیس سو اُنتیس کے، برطانوی راج میں کم عمری کی شادی سے متعلق بنائے گئے قانون میں ترمیم ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت اگر شادی کے وقت لڑکے کی عمر اٹھارہ سال سے کم اور لڑکی کی عمر سولہ سال سے کم ہوتو یہ کم عمری کی شادی تصور ہوگی۔ یہ قابلِ سزا جُرم ہے اور قانون کی خلاف ورزی پر فیملی کورٹ کو نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے۔

اس طرح، بچوں کی شادیاں کرانے یا اس عمل میں شرکت، دونوں ہی صورتیں قصور وار ہوں گی۔ خلاف ورزی پر، بِل میں دو سالِ تک کی قیدِ بامشقت، ایک لاکھ روپے جرمانہ، یا دونوں سزائیں بیک وقت دینے کی تجویز ہے۔ اس کے برعکس، اس وقت کم عمری کی شادی کے ذمہ داروں کے واسطے، قانون میں ایک ماہ سادہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا موجود ہے۔

اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے لیکن پاکستان میں، ردِ عمل کے زرخیز ماحول میں، اس کی سفارشات اُس دقیانوسی فِکر کو متاثر کرنےکی صلاحیت رکھتی ہے جن کی بحث، خراب صورتِ حال میں موجود خواتین اور بچوں کو زیادہ بدتر سمت میں دھکیلتی ہے۔

عوامی نمائندوں پر مشتمل فورم کے سوا، اس معاملے کو دیکھنے کا کوئی اور مناسب مقام نہیں ہوسکتا۔ پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے پانچ ارکانِ قومی اسمبلی کا پیش کردہ ترمیمی بِل ایسی بروقت کوشش ہے، جس کی اشد ضرورت تھی۔ خطرات سے دوچار معاشرے کے پسماندہ طبقات کا تحفظ، منتخب ارکان کا وہ فرض ہے، جسے نبھانے کی خاطر انہیں منتخب کیا گیا ہے۔

تاہم، دائیں بازو کے حملوں کا خوف ایک بار پھر قانون سازوں کے چہرے پر نظر آیا ہے، جس کا ثبوت مذہبی امور کا یہ تجویز کرنا تھا کہ اگر ضرورت محسوس کی گئی تو اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو بھی زیرِ غور لایا جائے گا۔ اگرچہ بِل پیش کیا جاچکا تو ایسے میں، اس پر مزید کسی شک و شبہ کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

اس کے بجائے، اسلامی نظریاتی کونسل کو یقیناً ایک طرف کرکے، پارلیمنٹ کے پاس اپنی بالادستی ثابت کرنے کا یہی مناسب وقت ہے۔

کم عمری کی شادیوں کے باعث بچے کی ذہنی صحت و جسمانی نشونما پر تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طویل عرصے سے چلے آرہے اس سنگین جرم کا حل نکالنے کی خاطر، موثر قانون سازی کے لیے بھی یہ ایک موقع ہے۔

مثال کے طور پر، پاکستان کے اندر دوران زچگی اموات کی شرح، سولہ سال سے کم عمر خواتین میں سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ حمل اور زچگی کے لیے ان کے جسمانی نظام کا مکمل طور پر صحتمند اور تیار نہ ہونا ہے۔ ہلاکتوں کی یہ شرح اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔

کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے واسطے موجودہ قانون بالکل غیر موثر ہے اور اکثر 'رسم و روایات' کے نام پر اس کی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے۔

مذکورہ قانون میں ترمیم کے لیے بِل خوش آئند قدم ہے لیکن وہ جو تاریک دور کی روایات کا جدید عہد پر تسلط چاہتے ہیں، ان کی مزاحمت متوقع ہے، جس کے خلاف قانون سازوں کو ثابت قدمی سے کھڑا رہنے کی ضرورت ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں