ڈرون معاملہ اجاگر کرنیکا انوکھا طریقہ
اسلام آباد: پاکستانی فنکاروں کے ایک گروپ نے امریکی ڈرون طیارے چلانے والوں میں ہمدردی کا جذبہ بیدار کرنے کی امید پر قبائلی علاقے کے کھیتوں میں بچوں کی بڑی بڑی تصویروں پر مشتمل پوسٹر لگا دیے ہیں، جنھیں آسمان کی بلندیوں سے با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
ناٹ آ بگ اسپلیٹ' نامی پراجیکٹ نے منی ہیلی کاپٹر کے ذریعے آسمان سے لی جانے والی ایک تصویر جاری کی ہے جس میں لڑکی کی شکل نظر آ رہی ہے۔
اس لڑکی نے صوبہ خیبر پختونخوا شمال مغربی علاقے میں ہونے والے ایک متنازع ڈرون حملے میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ امریکا سے ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرنے والے پائلٹ 'بگ سپلیٹ' نامی لفظ استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون کیمروں کے ذریعے زمین پر موجود متاثرین کیسے لگتے ہیں۔
اس گروپ کے ایک فنکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا 'ہم نے انتہائی کوشش کی ہے بگ سپلیٹ کی طرح نظر آنے والی تصاویر بنا سکیں'۔
'آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ آسمان سے کتنے چھوٹے اور کیڑے مکوڑوں کی مانند دکھتے ہیں، ہم نے انسانوں کے درمیان اس فاصلے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جب وہ ایک چہرے کے بجائے محض باریک نقطہ دکھائی دیتے ہیں'۔
مصور نے امید ظاہر کی کہ اس کوشش سے ہمدردی اور خود احتسابی کا جذبہ بیدار ہو گا'۔
سن 2004 کے بعد القاعدہ اور طالبان جنگجوؤں کی پناہ گاہ تصور کیے جانے والے افغان سرحد سے متصل پاکستانی قبائلی علاقوں میں دنیا کے کسی بھی خطے کی نسبت سب سے زیادہ ڈرون حملے کیے گئے۔
پاکستان میں ان حملوں کی بھرپور مخالفت پائی جاتی ہے۔
اسلام آباد ان ڈرون حملوں کی مذمت اور انہیں علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انہیں سینکڑوں معصوم انسانوں کی جان لینے کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔
تحقیقی ادارے بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے مطابق ان حملوں میں کُل دو ہزار 296 افراد ہلاک ہوئے جس میں کم از کم 168 بچوں سمیت 416 عام شہری ہیں۔
تاہم ڈرون حملوں کے حامیوں نے ان اعدادوشمار کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں سے تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہان بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود سمیت سمیت بڑے بڑے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔
اس پاکستانی گروپ نے ایک فرانسیسی فنکار جے آر کی مدد سے اپنے پراجیکٹ 'ان سائڈ آؤٹ' کے حصے کے طور پر پیرس میں ان تصاویر کو منظر عام پر لانے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔
یہ فنکار گزشتہ سال شمالی وزیرستان میں اس منصوبے کو شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے تاہم ڈرون متاثرین کے وکیل شہزاد اکبر نے خطرات کے پیش نظر انہیں روک دیا۔
ایک انسانی حقوق کی تنظیم کے روح رواں شہزاد اکبر نے اس کی جگہ یہ پوسٹر مقامی افراد میں بانٹ دیے۔
انہوں نے بتایا کہ 'ان لوگوں نے اسے چھت پر لگایا تاکہ جب ڈرون اڑیں تو امریکی ان بچوں کی تصاویر دیکھ سکیں، لوگوں نے اسے پسند بھی کیا کیونکہ یہ پینٹنگ کا بھی اچھا نمونہ تھا'۔
یاد رہے کہ آخری بار ڈرون حملہ 26 دسمبر 2013 کو ہوا جس میں تین مشتبہ شدت پسند ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق، ڈرون حملوں کو وقتی طور پر روک دیا گیا ہے تاکہ پاکستانی حکومت کو ملک میں سات سال سے جاری شدت پسندی کا خاتمہ یقینی بنانے کے لیے طالبان سے ہونے والے مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔
اس مذاکراتی عمل کا آغاز فروری میں ہوا تھا اور مارچ سے اب تک حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی قائم ہے۔
سرکاری سطح پر پاکستان ان حملوں کی مذمت کرتا رہا ہے لیکن کچھ خفیہ دستاویزات کے مطابق ماضی میں اسلام آباد نے ان سے چشم پوشی کی۔