مذہبی آزادی کی خلاف ورزی: پاکستان پر کارروائی کا مطالبہ
واشنگٹن: ماہرین کے ایک پینل نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے زمرے میں پاکستان کو بلیک لسٹ کر دے جہاں احمدی اقلیت کو جنوبی افریقہ جیسی نسل پرستی کی صورتحال کا سامنا ہے۔
عالمی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن نے حکومت کو یہ پالیسی بنانے کی تجویز پیش کی ہے لیکن ازخود کوئی اقدامات نہیں کیے۔ کمیشن نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو کچھ مخصوص وجوہات کے باعث پابندیوں کے زمرے میں لائے جانےوالے ملکوں کی فہرست میں شامل کرے۔
کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال سب سے ابتر ہے لیکن اس کے باوجود وہ سلسلے میں بنائی گئی امریکی فہرست میں شامل نہیں جہاں گزشتہ کچھ سالوں میں صورتحال ابتری کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
کمیشن کے چیئرمین رابرٹ جارج نے 1974 میں پاکستان میں غیر مسلم قرار دی جانے والی احمد اقلیتی برادری کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
جارج نے کہا کہ پاکستان میں احمدی اقلیت کو جنوبی افریقہ جیسی نسل پرستی کی صورتحال کا سامنا ہے جو کے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
یاد رہے کہ جنوبی افریقہ کو بھی 1948-1994 تک اسی قسم کی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے باعث عالمی سطح پر ان پر لاتعداد پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ محض سماجی یا ثقافتی تعصب نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
احمدی برادری پر ناصرف ملک میں متعدد حملے کیے گئے بلکہ ان کی قبروں کی بے حرمتی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس اقلیتی برادری نے گزشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ انہیں اس کے لیے خود کو غیر مسلم ظاہر کرنا پڑتا۔
رپورٹ میں پاکستان میں ہندو، عیسائی اور شیعہ برادری سے ہونے والے سلوک پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان میں 36 افراد کو توہین مذہب کی بنیاد پر پھانسی یا عمر قید کی سزا ہوئی اور یہ تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکا نے پاکستان پر مذہبی اقلیتوں سے بہتر سلوک روا رکھنے پر زور دیا تھا لیکن افغان جنگ میں اہم اتحادی ہونے کے باعث پاکستان کو بلیک لسٹ نہیں کیا گیا۔
امریکا نے آٹھ ملکوں سعودی عرب، چین، شمالی کوریا، ایران، سوڈان، ازبکستان، ایریٹیریا اور میانمار کو مختلف وجوہات کی بنا پر بلیک لسٹ کیا ہوا ہے جہاں کمیشن نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پر اس فہرست پر غور کرنے کے لیے زور دیا ہے۔
کمیشن نے شام کو بھی تین سال سے جاری خانہ جنگی کی بنیاد پر اس فہرست میں شامل کرنے پر زوردیا۔