• KHI: Partly Cloudy 26.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.2°C
  • ISB: Rain 15.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.2°C
  • ISB: Rain 15.1°C

دہشت کی ان کہی داستان

شائع May 9, 2014

یہ خوف اور دہشت کی وہ داستان نہیں جو عام ہیں۔ وہ دہشت جس میں عموماً دھماکوں کا ذکر ہوتا ہے، نہ دریافت ہونے والے سر کا یا بکھرے اعضا کا اور نہ ہی انسانی گوشت کے ٹکڑے یہاں آپ کو نظر آئیں گے۔

یہ سب کچھ ایک لائبریری میں شروع ہوا اور یہ وہ لائبریری بھی نہیں جو القاعدہ کے رہنما کے نام سے منسوب ہے۔ پاکستانی میڈیا میں اس طرح کی روایتی دہشت کی داستانوں کیلئے بہت جگہ ہے اور گنجائش بھی لیکن اس کہانی کے لئے کوئی آوازموجود نہیں۔

دہشت اور بربریت کا مرکزی اسٹیج پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ ان جامعات میں ہزاروں افراد امید لئے آتے ہیں، امتحانات میں بیٹھتے ہیں اور اچھی ملازمتوں کا خواب لئے یہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔

سرسبز لان کے درمیان اس کے کئی کیمپس ہیں جہاں ہزاروں لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ ان کی کارکردگی مرد طالبعلموں کے مقابلے میں کئی گنا بہتر بھی ہے لیکن اب تک اس بارے میں بہت کم تجزیے یا مطالعے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں خواتین کی بالادستی کے حقائق کو ذیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ جہاں تک بات ہے لڑکیوں کی انہیں ملک کی تقسیم اور تفریق کے اس ماحول میں مخلوط تعلیم کے حامل کیمپس میں خود کو بچانے کیلئے مختلف حکمتِ عملی اپنانا پڑتی ہے۔

بعض کو اسکارف پہننا پڑتا ہے تو کچھ چہرے پر سنجیدگی رکھتی ہیں، بعض خود کو کپڑوں میں لپیٹے رکھتی ہیں۔ تعلیم کے حصول میں انہیں جو بھی کام کرنا پڑے وہ ہر جگہ سمجھوتے کا راہ اپناتی ہیں۔ خواہ انکار کرتے ہوئے والدین ہوں، چیختے چلاتے کلرک ہوں، ہراساں کرتے ہوئے مرد طالبعلم یا تفریق رکھنے والی انتظامیہ ہو۔

ان تمام پس منظر کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اۤٹھائے ایک نوجوان خاتون طالبعلم یونیورسٹی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل اسٹڈیز کی لائبریری میں گئی۔

وہ خزاں کا ایک عام سا دن تھا جبکہ وہ بھی ایک عام سی لڑکی تھی۔ اکثر طالبعلموں کی طرح اسے بھی ریسرچ مواد کی ضرورت تھی۔ ایک پیپر میں حوالہ جات کیلئے اسے تحقیق کرنا تھی اور اسکے لئے لائبریری معاون ثابت ہوسکتی تھی۔

اسی مقصد کو ذہن میں لئے وہ لائبریری کے ایک اسٹاف ممبر کے پاس پہنچی۔ اس نے بتایا کہ اس موضوع کی اکثر کتابیں لائبریری کی دوسری جانب سیکنڈ فلور پر موجود ہیں۔

وہاں پہنچ کر اس نے خاتون پر جنسی حملہ کیا۔

وحشت بھری دہشت کی اس داستان میں جرم کی شکار لڑکی زندہ درگور ہوگئ ۔ اب اگروہ انتظامیہ کے پاس جاتی تو اسے اپنی شناخت بتانی پڑتی۔ اپنی شناخت بتانے پر اسے پاکستان میں ریپ کی شکار ہونے والی تمام خواتین کی طرح بے غیرتی اور الزام تراشی کے دہکتے ہوئے انگاروں پر گھسیٹا جائے گا۔ کتابوں میں لکھا قانون ہے کہ پہلے وہ چار عینی گواہ پیش کرے۔ باقی کیسوں کی طرح یہ بھی ایک اس کے لئے ایک ناممکن بات تھی۔

پھر آواز اٹھانے والی کالج کی لڑکیوں کی دلخراش کہاںیوں نے اسے چوکنا کردیا۔ گزشتہ سال کالج سے گھر آنے والی ایک لڑکی کو ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور بعد میں ایک پولیس اسٹیشن کے سامنے اس نے خود کو آگ لگا لی تھی۔ اس کا ریپ کرنے والا ہر شخص ایک کے بعد ایک رہا ہوتا گیا۔ ایسی بہت سی کہانیاں ہیں اور ہر پاکستانی لڑکی اس سے واقف ہے۔

اس قسم کے خوفناک عمل جو لائبریریوں میں ہوتے ہیں، یا مصروف دفاتر کے نامانوس کونوں کھدروں میں پلتے ہیں، انہیں دھمکیوں ، شرمندگیوں اور خوف کے رکاوٹوں سے برتا جاتا ہے لیکن یہ فائرنگ اور بمباری جیسے واضح اور زوردار دہشتگردی کی کارروائیوں کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔

یہ مرض نظر نہیں آرہا لیکن انکار کرنے والے اس ملک کو اندر سے کھا رہا ہے۔ پاکستانی لڑکیوں کیلئے جو بھی راستہ رہ جاتا ہے وہ بد ترین ہے، لب کھولو اور خوفناک سزا کیلئے تیار رہو یا پھر خاموش رہ کر اندر گھٹ گھٹ کر مرتے رہو۔

لڑکیاں کبھی اپنی یہ کہانی کسی کو نہیں سنا پاتیں، وہ الگ تھلگ رہتی ہیں ۔ ان میں سے کتنی ہی خبیث لائبریرین کا شکار ہوئیں، کتنی ہی ہوس ذدہ باس سے آلودہ ہوئیں اور مجرم پروفیسر کے ہتھے چڑھیں ۔ اب نہ جانے کتنی سینکڑوں ہزاروں اسی جرم کے ہاتھوں تکالیف اور اذیت سہتی رہیں گی۔

تبصرے (4) بند ہیں

muhammad umair May 09, 2014 05:54pm
aisy logo ko mar do or jo hamary hukmaran hain wo bhi to kahin na kahin se in sab cheezon main mulawais hain shayad hi koi aisa hukmaran aye jo sahi ho is gandagi se or yahan pr sab bheriye bany bethay hain pata nahi kab ye sans ruky gi or hawas ki kahani ekhtatam ko pohanchy gi sara kasoor hamary media ka or tv channels ka he jis umer main khilono se fursat nahi milti aj kal ye pata hota he k i love u main ne is se shadi kerni he ap pakistani daramas or comercial hi dekh lain or school k functions hi dekh laiin ab to or ab hamari international value dekh lain kia reh gai he hakarat ki nazar se dekhty hain log hamain is qom ko ab pasti k ellawa koi nahi batcha sakta shayad hi aisa ho k kuch ho jaye pakistan ka nahi to jo hal he khatam he qisa economically dekho pakistan ki currency india or hata k bangladesh se kitni pichy reh gai he wo log or the jo taraki kerty the ab to bas loot mar ka bazar he koi bhi kahin se uthta he lootta he or pata bhi nahi chalta k kahan chala gaya he khana gaya wo ehsas jo musalman main dory k liye tha kahan gai wo ezat jo dosron ko dekh kr hi ankhain nam ho jati thi kab ehsas ho ga kia ye batain sirf kitabon or qison main hi reh jain gi kia
Mahnoor May 09, 2014 06:09pm
اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے .اگر یہ مخلوظ تعلیمی نطام ختم کر دیا جائے تو ان واقعات میں کمی آ سکتی ہے.**دوسری** بڑی وجہ ہمارا میڈیا ہے جس پر فہش ڈرامے دیکھائے جاتے ہیں.اور حواء کی بیٹیوں کو ننگھا نچایا جاتا ہے..**تیسری وجہ**ہمارا عدالتی نظام ہے.. ان سب کا حل **اسلامی نظام شریعت **ہے.اگر مجرموں کو اسلامی طریقے سے سزا ملے تو آئندہ کسی کو ہمت نہ ہو.
fahad May 09, 2014 10:27pm
Buhat hi afsosnak khabar hai aur hamara media hamesha ki tarah ispe kuch nahe keraha hai.
SYED OWAIS MUKHTAR May 10, 2014 12:06pm
@Mahnoor: I strongly agree with you

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025