انتخابی مہم پر چھائے مودی نتائج حاصل کرسکیں گے؟

اپ ڈیٹ 13 مئ 2014
ہندوستان میں انتخابات کے نتائج ہمیشہ سے تجزیہ نگاروں کو چونکاتے آئے ہیں، لہٰذا قبل از وقت حتمی طور سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
ہندوستان میں انتخابات کے نتائج ہمیشہ سے تجزیہ نگاروں کو چونکاتے آئے ہیں، لہٰذا قبل از وقت حتمی طور سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ —. فوٹو رائٹرز

نئی دہلی: ہندوستان کی لوک سبھا کے انتخابات 2014ء کے لیے پولنگ کل پیر کے روز کو ختم ہو گئی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس مرتبہ انتخابی مہم کے پورے عرصے کے دوران بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد امیدوار نریندر مودی ہی چھائے رہے۔

لوک سبھا انتخابات 2014 میں عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اب صرف نتائج کے اعلان کا انتظار باقی ہے ۔ اسی مرحلے میں وارانسی میں بھی پولنگ ہوئی، جہاں سے بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی میدان میں ہیں۔ لیکن مبصرین کے اندازوں کے برعکس پیر کو نریندرا مودی وارانسی نہیں پہنچے، بی جے پی کے انتخابی مینیجرز کی حکمت عملی اس کی وجہ تھی ۔

بی جے پی کے رہنماؤں کے مطابق ابتدائی منصوبہ بندی کے مطابق نریندرا مودی کو وارانسی میں دوپہر بارہ بجے سے دو بجے کے درمیان پہنچنا تھا، لیکن ووٹنگ شروع ہونے کے تین گھنٹے بعد پارٹی کو احساس ہوا کہ اقلیتی ووٹ دو حصوں میں بٹتا نظر آرہا ہے۔

چنانچہ انتخابات کے منتظمین نے پارٹی کے لکھنؤ اور دہلی میں سینئر لیڈروں سے رابطہ کیا۔ پارٹی سے وابستہ ذرائع کے مطابق صبح ساڑھے دس بجے بی جے پی ہائی کمان کو رپورٹ بھیجی گئی کہ اگر مودی وارانسی آتے ہیں تو مسلم ووٹوں کا رُخ بدل جائے گا اور اس کا فائدہ حریف امیدوار کو ہوگا۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ اسی رپورٹ کے بعد مودی نے وارانسی نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں گاندھی نگر میں مودی نے میڈیا سے بات چیت کی اور وارانسی میں ووٹنگ کی شرح کی تعریف کی۔

وارانسی میں مودی کی اپیل کا اثر بھی نہیں ہوا اور یہاں صرف 55.34 فیصد ووٹ ہی کاسٹ کیے گئے۔ یاد رہے کہ پولنگ کے دن نریندر مودی کا ایک ویڈیو جاری کیا گیا تھا، جس میں بنارس کے عوام سے بھاری تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔

پیر کو آخری مرحلے کی پولنگ کے بعد زیادہ تر نیوز چینلز نے جو ایکزٹ پول پیش کیے ہیں ان کے مطابق بی جے پی کی قیادت میں سیاسی اتحاد این ڈی اے کی برتری نظر آرہی ہے، جبکہ کانگریس کی قیادت میں یو پی اے کا سیاسی اتحاد زوال پذیر دکھائی دے رہا ہے۔

گوکہ یہ ایکزٹ پول زیادہ قابل بھروسہ نہیں اور واشنگٹن پوسٹ نے اس حوالے سے ایک تفصیلی مضمون بھی شایع کیا تھا، تاہم اس پول کا براہ راست اثر شیئر مارکیٹ پر ضرور ہوا ہے۔ سب سے پہلے تو منگل کو امریکی ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپیہ 35 پیسے کی برتری کے ساتھ 59.7 کی شرح مبادلہ پر پہنچ گیا تھا۔

تاہم، بہت سے سیاسی مبصرین نے علاقائی جماعتوں کے علاوہ نو تشکیل شدہ عام آدمی پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے بھی کئی طرح کے امکانات ظاہر کیے۔

دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والی اس پارٹی کو نظرانداز کرنے کی بھول نہ تو سیاسی جماعتوں نے کی اور نہ ہی سیاسی مبصرین نے۔

سیاست سے بیزار ہوچکے ہندوستانی عوام کی سیاست میں دلچسپی دوبارہ پیدا کرنے کا کریڈٹ عام آدمی پارٹی کو بھی جاتا ہے۔ اب جبکہ انتخابات کے سارے مرحلے مکمل ہو چکے ہیں ، تو عام آدمی پارٹی کے مستقبل پر سوال اُٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ مثلاً کیا یہ انتخابات عام آدمی پارٹی کو ایک نئی بلندی پر لے جائیں گے یا اسے ایک سخت نصیحت ملنے والی ہے ؟

پیر کو جاری ہوئے اندازوں کے نتائج کو حتمی مان لیں تو اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کو پورے ملک کے علاوہ اس کے مضبوط گڑھ دہلی میں بھی کچھ زیادہ ووٹ نہیں ملے ہیں۔

عام آدمی پارٹی نے اس انتخابات میں 434 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے، بی جے پی کے 427 امیدواروں کے مقابلے میں سات امیدوار زیادہ تھے، تاہم، مبصرین کا خیال ہے کہ یہ پارٹی خود اپنی جیت کا دائرہ محدود کر چکی ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق، اس کا خیال ان 50 سیٹوں پر ہے، جہاں اس کے جیتنے کی امیدیں زیادہ ہیں۔ پارٹی کے ذرائع اس بات پر خاموش ہیں کہ اصل میں کل کتنی سیٹیں انہیں حاصل ہوں گی۔

لیکن انہیں اتنا یقین ہے کہ انہیں دہائی کی تعداد میں سیٹیں تو ضرور ملیں گی۔

جن 50 سیٹوں پر اس کی توجہ مرکوز رہی، ان میں سے گیارہ صرف دہلی میں ہیں۔ اس کے علاوہ، چار سے پانچ نشستیں پنجاب اور مہاراشٹر میں، جبکہ ایک ایک سیٹ کی امیدکرناٹک، راجستھان، تامل ناڈو، مدھیہ پردیش، یوپی، کیرالہ، اڑیسہ اور اتراکھنڈ میں ہے۔

عام آدمی پارٹی کی قیادت کو یقین ہے کہ اس انتخابات کے بعد ان کی جماعت کو قومی پارٹی کا درجہ مل جائے گا۔

البتہ عام آدمی پارٹی ابتداء سے ہی یہ حقیقت جانتی تھی کہ لوک سبھا انتخابات میں اس کی پہنچ بہت محدود رہے گی۔ اسے دہلی یا ان ریاستوں میں ہی کچھ کرنے کا موقع مل سکتا ہے، جہاں اسے کچھ شناخت حاصل ہے ۔

دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر بی جے پی انتخابات میں 230 سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلیتی ہے، تو پھر تجزیہ کاروں کو مزید سر كھپانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن اگر بی جے پی کو اس سے کم سیٹیں ملتی ہیں اور خاص طور پر 220 سے کم سیٹیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں بی جے پی کو نئے اتحادی ساتھی تلاش کرنے ہوں گے۔

یہی وجہ ہے کہ 180 سے 200 سیٹوں کے درمیان کے نتائج اس لیے بھی بی جے پی کے لیے خاص سودمند ثابت نہ ہوسکیں گے، کہ اس صورت میں کانگریس کو بھی 100 سے 120 سیٹیں حاصل ہونے کا امکان ہے۔

ایکزٹ پول اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اگرچہ ایسا ہونا مشکل لگتا ہے، لیکن ہندوستانی انتخابات ہمیشہ ہی تجزیہ کاروں کو چونکاتے آئے ہیں۔ حال ہی میں کانگریس کے رہنماؤں نے تیسرے محاذ کو باہر سے حمایت دینے کی جو باتیں کہی تھیں، اس کی بنیاد میں پارٹی کی طرف سے 120 سیٹیں جیتنے کا امکان ہی پوشیدہ تھا۔

تب اس کا یہ مطلب ہو گا کہ بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ دیگر پارٹیاں 250 كے قریب قریب نشستیں حاصل کرلیں گی۔

اگر بی جے پی 180 سے 200 سیٹوں کے درمیان پھنس کر رہ جاتی ہے تو کانگریس شرد پنوار جیسے لیڈر کے ساتھ ایک نئے اتحاد کی تشکیل کے امکانات کے بارے میں غور کر سکتی ہے۔ شرد پوار نہ صرف ماسٹر سیاستدان ہیں ، بلکہ انہیں کارپوریٹ فرینڈلی بھی سمجھا جاتا ہے۔

یہاں ہندوستان کے ایوانِ صدر کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ آئین میں اس کے لیے کوئی عملی وضاحت نہیں کی گئی ہے، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ پرنب مکھرجی اپنے پیشرو صدر کے مقررہ معیار کی پیروی کریں گے۔

وہ اکثریت کا دعوی کرنے والے کسی بھی پارٹی یا اتحاد سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ 272 ممبران پارلیمنٹ کی حمایت کا لیٹر دکھائیں، اور یہ تو خیر تقریباً طے ہے کہ وہ ایسا لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی یا اتحاد سے ہی کہیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں