اردو کے قدردان فرانسیسی ادیب
لاہور: فرانسیسی شہری جولین کولیمیو تیس سال کی عمر میں امدادی رضاکار کی حیثیت سے پاکستان آئے لیکن مختلف زبانیں سیکھنے کی جستجو اور کتابوں سے محبت کے باعث وہ جلد ملک کے بہترین جدید اردو ناول نگاروں بن گئے۔
عام طور پر تاریخی تخیلاتی کہانیاں لکھنے والے 41 سالہ کولیمیو کے بارے میں ناقدین نے کہا کہ مردہ جان میں بھی ذندگی کی روح پھونک دیتے ہیں۔
ان کے کام کو ملک کے معروف ادبی میلوں میں بھی پیش کیا گیا۔ ان کے تین اردو ناول اب تک چھپ چکے ہیں جبکہ دیگر تکمیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔
مرسیلس سے تعلق رکھنے والے کولیمیو ہندی زبان سیکھنے کے لیے 1993 میں آبائی وطن فرانس کو چھوڑ کر ہندوستان پہنچے لیکن جلد ہی ہندی زبان کے عامیانہ استعمال کے باعث اکتا کر دو سال بعد اردو کیجانب راغب ہوگئے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں نے یہ زبان اپنی ذاتی کوشش سے سیکھی، اس وقت تک میں ہندی میں بات چیت کرنا سیکھ چکا تھا، میں نے ایک کتاب سے رہنمائی لی جس میں ہندی سے اردو زبان کا ترجمہ سکھایا گیا تھا۔
'اس کے بعد میں نے پڑھنے کی مشق شروع کی، ایک سال کے بعد میں کتابیں پڑھنے کے قابل ہو گیا۔
اس کے بعد وہ انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس کے ساتھ پاکستان پہنچے جہاں انہوں نے ابتدائی طور پر شورش زدہ علاقوں میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔
کولیمیو کی اردو میں پہلی مختصر کہانی زلزلہ 2005 میں آنے والے زلزلے کے بعد سامنے آئی جو پاکستانی کشمیر کے اسکول میں پڑھنے والی لڑکی اور اسلام آباد کے متاثرہ اپارٹمنٹ کے گرد گھومتی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے بیسویں صدی کے شعرا کی جانب توجہ مبذول کی اور اسی عمل کے ذریعے انہوں نے اپنی لکھائی سے الگ شناخت بنائی۔
وہ 1950 کی دہائی کے شاعر ساغر صدیقی سے متاثر تھے جنہوں نے اپنی جلد موت سے قبل عام لوگوں میں ایک صوفی اور ملنگ جیسی شناخت بنالی تھی۔
کولیمیو نے اپنے پہلے ناول ساغر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر ایک کامیاب شاعر اور فلمی گیتوں کے لکھاری ہونے باوجود وہ کیوں ملنگ بن گئے۔
'میں نے اپنی ناول کی تکمیل کے لیے ان کی سوانح عمری میں موجود خلا کو اپنے تخیل سے پر کیا۔
اپنی موت کے بعد ساغر ایک عظیم ہستی کی شکل اختیار کر گئے اور لاہور کے مشرقی علاقے میں ان کا مزار بھی بنایا گیا اور کولیمیو سمیت مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد تحریک حاصل کرنے کے لیے وہاں کا رخ کرتے ہیں۔
ان کی دوسری کتاب "آوارہ عوامی شاعر" میرا جی پر تھی اور اس کتاب کا موجودہ دور کے بہترین مصنفین میں سے ایک 90 سالہ انتظار حسین نے انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا۔
حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ رومانوی مناظر اور منشیات کے استعمال کے ذکر کی حامل کولیمیو کی نثر عام اردو سے انتہائی مختلف اور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
'ان کے اظہار کا انداز اس سے انتہائی مختلف ہے جو ہم عام طور پر کہتے ہیں'۔
گزشتہ دہائی یا زائد سے محسن حامد اور محمد حنیف جیسے انگریزی زبان کے پاکستانی مصنفین ابھر کر سامنے آئے ہیں اور انہوں نے ملک کے تشخص کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔
اردو اپنی خوبصورتی اور شاعری کی وجہ سے مشہور ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں اردو ادب ذبوں حالی کا شکار ہے اور اس پر گرد سی چھا گئی ہے اوراردو اب نچلے طبقے کی زبان سمجھی جانے لگی ہے۔
کولیمیواب نثر نگاری کی محدود سرحدوں کو پھلانگتے ہوئے سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ ورانہ شدت پسندی جیسے حساس موضوعات پر بھی لکھنے کے خواہاں ہیں۔
ان کا تیسرا ناول 'شہید منیر جعفری' ایک ایسے شعلہ بیاں شیعہ مقرر کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے جن کے والد کو شدت پسندوں نے مار ڈالا تھا۔
یہ کتاب اسلامی تاریخ کے اہم واقعہ کربلا سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے جس کو موجودہ سانحات کو دیکھتے ہوئے استعارہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کے نئے مجموعے میں مختلف کرداروں کو جگہ دی گئی ہے جیسے ایک ایسے شدت پسند کی کہانی جو بعدازاں دلال بن جاتا ہے، کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک اسلامی مبلغ کی کہانی جو جنگلی قبائل کے دین کی تبدیلی کے لیے نکلتا ہے لیکن ایمازون کے جنگلات میں کھو کر مر جاتا ہے اور ایک بلوچ باغی کی کہانی جو متعدد سانحات کے بعد فرانس منتقل ہوجاتا ہے۔
انگریزی کے پاکستانی مصنف محمد حنیف نے جنوری میں ان کی کتابوں کے مجموعے پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی شخص اتنے بہتر طریقے سے پاکستانی ثقافت میں چھپی باریکیوں اس انداز سے نہیں سمجھ سکتا جیسے وہ سمجھے ہیں۔
ان کے پبلشر(ناشر) اور ایڈیٹر امجد سلیم نے کہا کہ ایک غیر ملکی کی حیثیت سے کولیمیو ہمارے معاشرے کو الگ انداز میں دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کی تہذیب انتہائی مختلف ہے لیکن جولین کا پاکستانی معاشرے کے بارے میں مشاہدہ، اسے سمجھنے اور بیان کرنے کا انداز ہمارے لیے انتہائی دلفریب ہے۔
ایک غیر ملکی کی جانب سے اردو لکھے کے جانے کے باعث انوکھا تصور کیے جانے والے کولیمیو نے کہا کہ انہیں کچھ قاریوں کی رہنمائی حاصل رہی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی رکاوٹ تھی جس پر مجھے قابو پانا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ مجھے کتاب، اس کے خاکے، خاصیت اور کمیوں کے بارے میں بتانے کے بجائے مجھے میری زبان کے بارے میں بتاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم اب صورتحال مختلف ہے اور امید ظاہر کی کہ اب میری تحریریں دقیانوسی خیالات کے حامل لوگوں کو بھی چونکاتے ہوئے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیں گی۔
تبصرے (2) بند ہیں