افغانستان کا مستقبل
اوباما انتظامیہ نے فتح کا اعلان کرنے کے بجائے یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ امریکہ کی طویل ترین جنگ میں ایک نیا باب کھولنے کیلئے تیار ہے- امریکی افواج کی تعداد میں کمی کر کے آخری مرحلہ تو شروع ہو ہی چکا تھا لیکن امریکہ کو افغانستان میں جنگ کے سلسلہ کوایک مکمل خاتمہ کے انجام تک پہنچانے میں تقریباً ڈھائی سال لگیں گے- صدر اوباما کے دیے گئے نئے ٹائم ٹیبل کے مطابق، امریکہ کی آخری فوجیں 2016 ء سے پہلے افغانستان سے روانہ نہیں ہونگی-
اگرچہ سیکیورٹی اور جنگی ذمہ داریاں مکمل طور پر اس سال کے آخر تک کابل انتظامیہ کے حوالے کردی جائیں گی پھر بھی بچی ہوئی افواج کی موجودگی جو خاصی تعداد میں ہونگی امریکہ کو افغان اختلافات میں 2014 ء کے بعد بھی الجھائے رکھیں گی- ان کی اسپیشل افواج غالباً القاعدہ کے خطرے کا مقابلہ کرنے اور افغان سیکیورٹی فوج کو تربیت دینے کیلئے وہاں پہلے سے موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی جنگ کا خاتمہ اس سال تو نہیں ہو گا - دراصل، یہی تو وہ اہداف ہیں جو امریکی فوجیں اس تیرہ سالہ طویل جنگ کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں-
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا اتنی محدود فوجی موجودگی استحکام قائم کرنےمیں کامیاب ہو پائے گی جو ایک وقت میں 130,000 فوجیں بھی نہیں قائم کر سکیں- امریکہ کی فوجوں کی واپسی کی حکمت عملی آج بھی اتنی ہی الجھن کا شکار ہے جتنی اس پورے عرصے میں جنگ کے دوران رہی ہے- اس سال کی ایک تاریخی سیاسی تبدیلی کے باوجود، باغیوں کے ساتھ کسی سیاسی مصالحت کی کوششوں کے بغیر، افغانستان میں طویل المیعاد استحکام ایک سوالیہ نشان ہی رہے گا -
آخر کافی سوچ بچار کے بعد اوباما انتظامیہ نے ایک امریکی سپاہی کے بدلے میں پانچ سینئر طالبان قیدیوں کو گوانتانامو بے کے قید خانے سے رہا کر دیا- قیدیوں کی تبدیلی کے بارے میں دو سال سے زیادہ عرصے سے باتیں ہورہی تھیں- یہ مسئلہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات سے براہ راست جڑا ہوا تھا-
دیگر باتوں کے علاوہ، طالبان قیدیوں کو چھوڑنے سے امریکہ کا انکار دوحہ مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ تھا- یہی پانچوں قیدی طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بننے والے تھے- اوریہ معاملات جو اب مکمل ہوئے ہیں ان مردہ مذاکرات کو زندہ کرنے کیلئے کافی تاخیر سے ہوئے ہیں-
لیکن کچھ امریکی افسران اب بھی پرامید ہیں کہ امریکی سپاہی کی رہائی، امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطے کو دوبارہ شروع کرنے میں معاون ہو سکتی ہے- امریکی سکریٹری دفاع چک ہیگل نے NBC نیٹ ورک کو قیدیوں کے تبادلے کے بعد انٹرویو میں کہا "ممکن ہے یہ نئی ابتدا کسی طرح کی مفاہمت پیدا کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو"-
افغان باغیوں کیلئے، یہ ایک بڑی فتح سمجھی جا رہی ہے، مُلّا عمر، تحریک طالبان کے امیر نے اپنی طرف سے "تمام افغان مسلمانوں اور قیدیوں کے خاندانوں کواس بڑی فتح پر دلی مبارکباد" کا پیغام دیا ہے- لیکن اس بیان میں امریکیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں کہا-
وہ پانچوں قیدی محمد فضل، ملا نوراللہ نوری، محمد نبی، خیراللہ خیرخواہ اورعبدالحق واسق، بے دخل کئے جانے والی طالبان حکومت کے بہت اہم رکن تھے اور آج بھی اتنے لمبے عرصے قید میں رہنے کے باوجود بغاوت کی تحریک میں ان کا بہت اثرونفوذ ہے- وہ قطر بھیج دئے گئے ہیں جہاں ایک سال تک ان کی نقل وحرکت پر پابندی رہے گی-
اگر قیدیوں کے تبادلے کے بعد بھی دوحہ کے معطل مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہوتے ہیں، تو بھی اس کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان کسی نہ کسی طرح کے تعلقات کا سلسلہ شروع ہونے کے موقع ضرورپیدا ہوئے ہیں- یہ بات یقینی ہے کہ یہ خفیہ بات چیت دونوں طرف سے بہت اونچے درجے پرکی گئی تھی- یہاں تک کہ صدر حامد کرزئی بھی اس ہونے والی مفاہمت کے بارے میں مکمل طور پرتاریکی میں تھے-
اس سے اوباما انتظامیہ اورجانے والے افغانی لیڈر کے درمیان بڑھی ہوئی بدگمانی کا پتہ چلتا ہے- ان کے تعلقات کرزئی کے دوطرفہ سیکیورٹی ایگریمنٹ پر دستخط سے انکاراور دوحہ مذاکرات میں ان کی رخنہ اندازی کی وجہ سے بے حد نچلے درجے پر پہنچ گئے تھے- پھر بھی، اس پر کرزئی کو الزام نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ امریکہ سے شدید ناراض تھے کہ امریکہ ان کے پیٹھ پیچھے طالبان سے مذاکرات کر رہا تھا- اوباما انتظامیہ اس افغان صدر کو جو ویسے بھی جا ہی رہا تھا بغیر کسی مسئلے کے نظرانداز کر سکتی تھی- لیکن طالبان کے ساتھ کوئی بھی یکطرفہ امریکی مفاہمت نئی افغان قیادت کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہوتی-
اس وقت جو چیز سب سے زیادہ پراسرار ہے وہ قیدیوں کے تبادلے کا موقع اور وقت ہے- اسی وقت کیوں؟ دوسال سے یہ فیصلہ رکا ہوا تھا- اوباما انتظامیہ نے ایسا لگتا ہے ہر احتیاط کو پس پشت ڈال دیا ہے- اور یہ خفیہ سودا ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان اپنی سیاسی تبدیلی کے نازک دور سے گذر رہا ہے اور صدارتی انتخابات کا آخری دور زیادہ دور نہیں- ایسے میں امریکہ کے آخری کھیل کے بارے میں ایسے اقدامات غیریقینی کی کیفیت کو مزید ہوا دیتے ہیں-
اب یہ مقابلہ عبداللہ عبداللہ، ایک سابق وزیرخارجہ اور ایک پرانے سیاستدان، اشرف غنی ایک سابق وزیر خزانہ اور عالمی بینک کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے درمیان ہے- مقابلہ کافی سخت ہونے کی امید ہے، پر لگتا یہی ہے کہ عبداللہ عبداللہ کو اپنے حریف پر برتری حاصل ہے-
شمالی اتحاد کے ایک سابقہ لیڈر جن کا ملاجلا نسلی پس منظر--- نصف پختون، نصف تاجک--- عبداللہ عبداللہ نے ظلمے رسول اور گل آغا شیرزئی کی حمایت حاصل کرکے، دونوں پختون صدارتی امیدوار جنہیں پہلے مرحلے میں ناکامی ہوئی تھی، اپنی پوزیشن زیادہ مضبوط کرلی ہے- مسٹر اشرف غنی، احمد ضیاء مسعود کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا-
نتیجہ جو بھی ہو، قیادت کی تبدیلی افغانستان کی صورت حال میں استحکام نہیں لا سکے گی- مگر ایک بات یقینی ہے، نئے افغان صدر دوطرفہ سیکیورٹی ایگریمنٹ پر دستخط کردیں گے، جو امریکہ کی افغانستان میں موجودگی میں تسلسل کی ایک شرط ہے-
افغانستان 2014 ء کے بعد- لیکن افغانستان کے آخری لمحات کا کھیل مشکلات سے سے بھرپور ہوگا-
لکھاری، لکھنے کے علاوہ صحافت سے بھی وابستہ ہیں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں