سڈنی : آسٹریلیا نے پیسیفک امیگریشن کیمپوں میں موجود پاکستانی پناہ گزینوں کو رضاکارانہ طور پر اپنے آبائی وطن واپس لوٹ جانے کی صورت میں تین ہزار آسٹریلین ڈالرز سے زائد رقم دینے کی پیشکش کی ہے۔

یہ بات ایک رپورٹ میں سامنے آئی جس نے پناہ گزینوں کے حق میں مہم چلانے والے حلقوں میں اشتعال پھیلا دیا۔

آسٹریلین اخبار سڈنی مارننگ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق پاپوا نیو گنی کے منوس آئی لینڈ اور چھوٹی سی پیسیفک ریاست نیرو کے حراستی مراکز میں موجود افراد کو لبنان لوٹ جانے کی صورت میں دس ہزار آسٹریلین ڈالرز دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔

اسی طرح ایرانی اور سوڈانی افراد کو اپنی پناہ گزین کی حیثیت ختم کرنے پر سات ہزار ڈالرز دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، جبکہ افغانیوں کیلئے یہ رقم چار ہزار، پاکستان، نیپال اور میانمار کے باشندوں کے لئے 3300 ڈالرز ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سالہ ستمبر تک اقتدار میں رہنے والی سابقہ لیبر انتظامیہ کے وقتوں میں یہ معاوضہ بہت کم یعنی ڈیڑھ سے دو ہزار ڈالرز تک دیا جارہا تھا۔

آسٹریلیا کے امیگریشن وزیر اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ یہ ایک دہائی سے جاری روایتی مشق ہے جس کے تحت رضاکارانہ طور پر اپنے وطن لوٹ جانے والوں کو آبادکاری کے پیکجز کے تحت رقوم کی پیشکش کی جاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پیکج ہر اس شخص کیلئے ہے جو رضاکارانہ طور پر گھر واپس جانے کا فیصلہ کرلے۔

'ان مختلف پیکجز کا مقصد مالی فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ لوگوں کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنے کیلئے معاونت اور تربیت وغیرہ فراہم کرنا ہے'۔

اس بارے میں لیبر پارٹی کے امیگریشن ترجمان رچرڈ مارلیس کا کہنا تھا کہ حکومت اس بات کی یقینی دہانی کرائے کہ سیاسی پناہ لینے والوں کی درخواستوں کی مناسب طریقے سے جانچ پڑتال کی جائے گی اور بلینک چیک جاری نہیں کئے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا: جب اسکاٹ موریسن اپوزیشن میں تھے تو وہ ہماری حکومتی پیکجز کی مخالفت کرتے تھے اور اب وہ خود ہم سے تین گنا زیادہ رقوم کی پیشکش کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ آسٹریلیا نے حالیہ برسوں میں سیاسی پناہ کے حوالے سے اپنی پالیسی کو سخت کیا ہے۔

خاص طور پر کشتیوں پر غیر قانونی ڈھنگ سے آسٹریلیا پہنچنے والوں کو قیام کی اجازت نہیں دی جاتی چاہے وہ پناہ گزین ہی کیوں نا مان لئے جائیں۔

اس پالیسی کو متعارف کرائے جانے کے بعد زیادہ تر پناہ گزین رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہیں، جبکہ آسٹریلین سرزمین پر کشتیوں کے ذریعے آمد کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے۔

وزارت امیگریشن کے مطابق گزشتہ سال ستمبر میں کنزوریٹو حکومت کے قیام کے بعد سے 283 افراد رضاکارانہ طور پر واپس لوٹ چکے ہیں۔

دوسری جانب، پناہ گزینوں کے حامیوں نے رقوم کی ادائیگی کے خیال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان افراد کو وطن واپسی پر سزاﺅں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

shakir Jun 21, 2014 05:12pm
This act of the Australian government is totally against the Geneva Convention. An asylum seeker can not be pressurized by torturing mentally to take his/her application back. On the other hand, the situation concerning human rights is well known to everyone especially the persecution and genocide going on again Hazaras in Quetta as well as the whole Pakistan. That would totally be injustoce and unjustifiable if people are forced to send back home by just paying 3300 $.