بیشتر مسلمانوں کو آخرکار وہی کچھ مل گیا جس کی وہ برسوں سے تمنا رکھتے تھے۔ یعنی ایک اسلامی خلافت کا اعلان! لیکن یہاں اس پر اتنی خوشی کا اظہار کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟

ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ خودساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کو اپنی خلافت کے اعلان کا اخلاقی جواز حاصل نہ تھا؟

ابوبکر کے ماضی کو دیکھ کر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ بیشتر مسلمان اس کے سیاہ جھنڈے کو سلامی پیش کرنے کی خواہش کریں گے۔

مگر ابوابکر البغدادی کا شام اور عراق کے بڑے حصے میں جنگجوؤں کے ہجوم کی قوت کے بل پر اقتدار حاصل کرنے کی بہت سی مثالیں مسلم تاریخ میں موجود ہیں۔

ابوبکر البغدادی مسلم سلطنت کی پرانی سرحدوں کی بحالی کے خواہشمند ہیں، اور انہوں نے اس کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں سے بھی حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔

مگر ان کے مطالبے کا کوئی بامقصد جواب سامنے نہ آنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دنیا اب کافی تبدیل ہوچکی ہے۔

آئی ایس آئی ایس کی پیش رفت کی رفتار سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر اس کی حقیقی وجوہات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس گوریلا فورس کو کامیابی اس بنا پر ہی مل سکی ہے کہ اس کے دشمن کمزور تھے۔

شام کے صدر بشار الاسد کی فوج باغی گروہوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے اور اسی وجہ سے وہ آئی ایس آئی ایس پر توجہ دینے سے قاصر ہے، جبکہ عراقی حکومت کی کمزور گرفت اس بقا کی جنگ کے لیے ناکافی ثابت ہوئی ہے، جبکہ البغدادی عراق کے ناراض سنی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی طاقت میں اضافہ کرنے میں بھی کامیاب رہا۔

اس بدنظمی کا مشاہدہ مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں دیکھنے میں آرہا ہے، مصر میں اس وقت فوج اور اس کے حامی ایک طرف جبکہ قدامت پسند مصری اخوان المسلمون کے ساتھ دوسری جانب کھڑے ہیں، اور وہاں ایک خوفناک خانہ جنگی کے خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

گزشتہ ہفتے دی اکانومسٹ نے اپنی کور اسٹوری ’’عرب دنیا کا المیہ: ایک زہریلی تاریخ‘‘ کے عنوان سے شایع کی تھی۔

اس تحقیقی مضمون میں 1975ء کے بعد سے مشرق وسطیٰ کی درجن بھر خانہ جنگیوں کا ذکر کیا گیا تھا، جس کے دوران تقریباً دس لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اگر اس میں 80ء کی دہائی کی ایران عراق جنگ کی خونریزی کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ کسی غیرمسلم دشمن کے مقابلے میں زیادہ تر مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔

لیکن اس میں نئی بات کیا ہے؟ یہ آج کی متعدد مسلم ریاستوں میں جاری بے قابو تنازعات کا المیہ ہے۔ سیاسی عزائم، نظر انداز کیا جانا اور غربت نے باہم مل کر ہمیں تشدد کے کبھی ختم نہ ہونے والے سلسلوں سے دوچار کر رکھا ہے اور یہ معاملات ہمیں پسماندگی میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔

اگرچہ عرب ریاستیں تیل کی دولت کے باعث خوشحال سمجھی جاتی ہیں، مگر وہاں ظلم کے ذریعے استحکام قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس وقت مشرق وسطیٰ میں تین شگاف کافی گہرے ہوچکے ہیں۔ اول فلسطینی تنازعہ، دوم شعیہ سنی تقسیم اور سوئم جمہوریت پسندوں اور ہر قیمت پر اقتدار میں رہنے کا خواہشمند حکمران طبقے کے مابین جنگ۔

اس آخری درجے میں بشار الاسد جیسے جابر حکمران اور السیسی جیسے فوجی جنرل کے علاوہ سعودی عرب، بحرین، یو اے ای، کویت اور قطر کے حکمران خاندان شامل ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذہبی بالادستی کی جدوجہد کو پاکستان سے لبنان تک فرقہ وارانہ تنازعے میں اضافے کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔

اپنے اداریہ میں اکانومنسٹ لکھتا ہے "اسلام کچھ عرب حلقوں کی جانب سے کی جانے والی جدید تعبیر کی بنا پر شدید مشکلات کا شکار ہے۔ مذہب کا یہ نظریہ مسجد اور ریاست کی علیحدگی کا تصور نہیں رکھتا، جس نے آزاد سیاسی اداروں کی ترقی کا راستہ روک کر رکھ دیا ہے۔ اقلیتی مسلم عسکریت پسند مالی فوائد کے لیے قرآن مجید کے الفاظ کا استعمال کررہے ہیں، جبکہ دیگر مسلمان، جو خانہ جنگی اور گروہی تصادم کے خطرے سے دوچار ہیں، اپنے فرقوں میں پناہ تلاش کر رہے ہیں اور اسلام کا یہ پرتشدد تصور دور دراز کے مقامات جیسے شمالی نائیجریا اور شمالی انگلینڈ تک پھیل چکا ہے"۔

اس میں انڈونیشیا، افغانستان اور پاکستان کا بھی اضافہ کیا جانا چاہیئے تھا، مگر اس وقت جب ہم خود کو انتہاپسندی کے شکار کی حیثیت سے پیش کررہے ہوتے ہیں، درحقیقت اس سے ہم تاریکی کی طاقتوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہوتے ہیں کہ وہ خود کو جہادی کے روپ میں پیش کرسکیں، جو اسلام کی ابتدائی تاریخ کی عظمت کو بحال کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

جب تک ہم اپنے شیطانوں کا مقابلہ نہیں کرتے اور یہ نہیں سمجھ لیتے کہ ہمارا دشمن کون ہے، ہم تشدد اور کنفیوژن کا شکار بنتے رہیں گے جو کہ مسلم دنیا میں صدیوں سے موجود ہے۔

اپنی پریشانیوں کا الزام خارجی قوتوں خاص طور پر مغرب پر لگانا بہت آسان ہے، اور یہ درست بھی ہے کہ مغرب مسلم دنیا کی بیشتر جابر حکومتوں کی حمایت کرتا ہے۔ سرد جنگ میں تو یہ معاملہ کہیں زیادہ بدتر صورت میں موجود تھا، مگر ہمیں اپنی قسمت کا مالک خود بننا چاہئے اور آمروں، سیاستدانوں اور بادشاہوں یا واشنگٹن کو اجازت نہیں دینی چاہیئے کہ وہ مسلم دنیا سے تاوان وصول کرتے رہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

maham Jul 14, 2014 01:43pm
> Blockquote قبائلی جنگجوﺅں نے جزیرہ نما عرب سے نکل کر بازنطینی اور ایرانی سلطنتوں کو تباہ کر دیا تھ > Blockquote can you please elaborate this line Irfan hussain
Babur Jul 15, 2014 03:19am
كیا زمانہ آ گیا ہے . ایك حیوان اپنے آپ كو خلیفہ بنا دیا ہے . البغدادی كی تاریخ كو پڑہا جائے تو پتہ چلتا ہے كہ یہ درندہ انسان كہلانے كی لائق نہیں ہے ، خلیفہ تو دور كی بات ہے . اگر كوئی اتنی آسانی سے خلیفہ بن سكتا تہا تو آج تك بہت سے خلیفے سامنے آتے . اررے بہائی ، خلیفہ بننے كا شرائط ہے ، اصول ہے ، قاعدے ہے . ہر كوئی خلیفہ بن نہیں سكتا . اور پہر یہ سؤال بھی ہے كہ امیر المؤمنین كا كیا ہوا . كچھ سال پہلے تو ملا عمر كو یہ سب جہادی لوگ امیر المؤمنین مانتے تہیں اور اب ... پتہ نہیں یہ لوگ كب سدھرینگے
Shah Jamal Wazir Jul 15, 2014 11:54am
‏‎ ‎مسلمان کفار سے اتنے خوفزدہ ھے کہ وہ خلافت مان ھی نہیں سکتے
anil kumar Jul 15, 2014 04:14pm
pakistan main talban misar main akhwan ul muslmeen iraq main daaiesh kyea muslim hukumateen lkamzoor partii jaa rahi hain in k khilaaf? ya apny awaam ko un ky hkook deny main nakaam rahi hain?