• KHI: Partly Cloudy 19.6°C
  • LHR: Fog 11.5°C
  • ISB: Rain 13°C
  • KHI: Partly Cloudy 19.6°C
  • LHR: Fog 11.5°C
  • ISB: Rain 13°C

پکوان کہانی: چپلی کباب

شائع August 16, 2014

میرے کزن کیماڑی نیول بیس میں کیڈٹ تھے اور اکثر ان کا ویک اینڈ ہمارے گھر پر گزرتا- ان کی آمد کا سب سے بہترین حصّہ رات کو انہیں کیماڑی نیول بیس واپس چھوڑنے کا سفر ہوتا تھا، کیونکہ واپسی میں میرے والدین ہمیشہ ڈھابے پر ضرور روکتے جہاں کی گرم گرم نان اور چپلی کباب ویک اینڈ کا خاص ڈنر بن گیا-

ہر ہفتے کی صبح جب عظیم بھائی ہمارے گھر آتے تو دروازے کی گھنٹی بجتے ہی میں رات کے کھانے کے بارے میں سوچنے لگتی- مجھے اسی وقت سے اپنے منہ میں چکنائی کے ساتھ گرم گرم نان میں لپٹے اناردانے اور ٹماٹر کا ذائقہ محسوس ہونے لگتا- میرا ماننا ہے کہ اصلی پشاوری چپلی کباب سے بہتر کوئی کباب نہیں ہوسکتا، آج کا بلاگ اسی پکوان کے نام-

پکوان کہانی کی دیگر کہانیوں کی طرح، چپلی کباب بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے- اس نے مختلف خطّوں، ادوار اور لوگوں تک سفر کیا اسی لئے ایک عالمی کشش رکھتا ہے- بلاشبہ یہ دنیا کے مغربی حصّے میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی مشرقی ڈش ہے- اسے دیسی، عرب، مڈل ایسٹرن، سینٹرل ایشین اور کاکیشین سب ہی پسند کرتے ہیں-

کہا جاتا ہے کہ ترکش اور ایرانی سپاہی اپنی تلواروں پر گوشت کے پارچے لپیٹ کر انہیں آگ میں بھوننا پسند کرتے تھے- گوشت جانور کی چربی میں پکایا جاتا اور جیسے ہی یہ تیار ہوتا سپاہی فوراً اسے ٹھکانے لگا دیتے- یہ سپاہی لمبے سفر کے دوران شکار کر کے اپنی خوراک حاصل کرتے-

کباب ہمیشہ سے دیہی پسند رہے ہیں، حالانکہ یہ مغل مینو کا نمایاں حصّہ رہے ہیں لیکن آج کل کے چپلی کباب خالصتاً پختون سٹائل رکھتے ہیں-

کہتے ہیں لفظ 'کباب' عربی زبان سے نکلا ہے لیکن اس پر ترک، ایرانی اور وسطی ایشیائی بھی اپنا دعویٰ رکھتے ہیں- اس کا مطلب ہے سیخ میں لگا کر گرل پر یا کھلی آگ پر پکانا، فرائی کرنا یا جلانا- مغرب میں کباب سیخ پر یا پھر ڈونر کباب کی شکل میں پیش کیا جاتا، سائیڈ میں 'پلاف' (چاول کی ڈش) یا مڈل ایسٹرن پیٹا بریڈ رکھی جاتی ہے- حالانکہ برصغیر میں کباب کی درجنوں اقسام موجود ہیں جیسے شامی، بوٹی، بہاری، گلاوٹی وغیرہ مگر ان سب کا پشاوری چپلی کباب سے کوئی مقابلہ نہیں-

بیف کے یہ چٹکیلے کباب، صوبۂ پختون خوا جسے پہلے سرحد اور افغانستان کا مشرقی حصّہ کہا جاتا تھا، کی فخریہ ڈش ہیں اور پاکستان بھر میں اور انڈیا میں بھی پسند کیے جاتے ہیں- کچھ کباب بھیڑ، دنبے، چکن یا بکری کے گوشت سے بنائے جاتے ہیں لیکن چپلی کباب خالصتاً بیف کا بنتا ہے یا پھر کبھی دنبے کے گوشت کا- چپرخ، پشتو میں چپٹے کو کہتے ہیں، اور چپلی اس لفظ سے اخذ کیا گیا ہے یعنی چپٹے گول کباب- پختون ریسیپی میں بیف اور آٹے کا مناسب استعمال کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ کباب ذائقے میں لطیف ہوتے ہیں-

چپلی کباب میں جو اجزاء استعمال کے جاتے ہیں ان کا تعلق افغانستان سے ہے اسی لئے اس میں اناردانہ اور ثابت دھنیہ پایا جاتا ہے جو کہ کباب کے منفرد ذائقے کی وجہ ہے- ان اجزاء کے امتزاج سے بننے والے کباب لذیذ ہوتے ہیں، چناچہ علاقہ اور اصلی چپلی کباب بنانے والے دونوں ہی تعریف کے مستحق ہیں-

آج جو ریسیپی میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں وہ مجھے میری ساس شائستہ آنٹی نے دی ہے جن کی ابتدائی زندگی پشاور میں گزری، پیش خدمت ہے میرے کچن سے آپ تک۔


چپلی کباب


اجزاء: گیارہ سے تیرہ کباب بنانے کے لئے

بیف کا قیمہ - ایک پاؤنڈ

گندم کا آٹا - چار کھانے کے چمچ

پیاز کٹا ہوا - ایک عدد درمیانہ

لال مرچ پاؤڈر - ایک چائے کا چمچ

زیرہ- ایک چائے کا چمچ

گرم مصالحہ - ایک چائے کا چمچ

ہرا دھنیہ- چار کھانے کے چمچ

نمک- حسب ذائقہ

ہری مرچیں- دو عدد

ثابت دھنیہ کوٹا ہوا - ایک کھانے کا چمچ

انڈا- آدھا

اناردانہ - ایک چائے کا چمچ

تیل- ایک کھانے کا چمچ

بیکنگ پاؤڈر- آدھا چائے کا چمچ

ٹماٹر - کٹے ہوئے، دو عدد درمیانے

تیل- تلنے کے لئے

ترکیب

تمام اجزاء کو ایک بڑے برتن میں مکس کریں- پھر ہاتھ کی مدد سے گول کباب بنا لیں، ہلکے تیل میں فرائی کریں اور گرم نان اور دہی کے ساتھ نوش کریں-

بسمہ ترمزی

لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔

انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

آشیان علی Aug 16, 2014 08:25pm
واہ بسمہ بارش بھی ہے ہلکی سردی بھی ہے ایسے میں گرم گرم کباب بس کیا کہنے آپ کے. آپ کے ذوق اور ریسرچ کی داد نہ دینا بد ذوقی ہے. مگر اگر کبھی آپ نے چپلی کباب بنانا ہو تو آپ کے بتائے ہوئے اجزا اور ترکیب مٰن ذرا سی ترمیم کر کے دیکھ لیں .زیرہ بلکل نہیں ڈالنا گندم کے آٹ کی جگہ مکئی کا آٹا کر لیں بیکنگ پاوڈر بھی نہیں ڈالنا. انڈا کی ذردی کچی ہی مٹیریل میں مکس کر دینا جبکہ سفیدی کو فرائی کر کے مٹیریل میں مکس کر دینا. ٹماٹر کو باقی اجزا میں مکس نہیں کرنا بلکہ کباب کی گول ٹکیا بنانے کے بعد اس کباب پر ہلکے سے دباو سے فکس کرنا ہو گا. بس خیال رہے کوکنگ آئل یا گھی میں نہیں بلکہ حیوانی چربی میں تلنا ہوتا ہے چپلی کباب کو. یا کم از کم چربی اور کوکنگ آئل دونو ں ملا کر استعمال کر لیں. تلنے کے لیے چربی کی مقدار اتنی ضرور ہونی چاہیے جس میں کباب کی ٹکیا ڈوب سکے یا تیر تی رہے. مطلب یہ کہ پکانے کے دوران کباب کڑاہی کے ساتھ ٹچ نہ ہو .
یمین الاسلام زبیری Aug 17, 2014 12:28am
یہ تحریر ہماری نوجوان نسل کی زبان کا ایک اچھا نمونہ ہے. خاص الفاظ جو مجھے چونکا گئے وہ یہ ہیں؛ کزن، ڈش، مڈل ایسٹرن، سینٹرل ایشین، کاکیشی، ترکش، مینو،سٹائل، گرل، فرائی، سائیڈ، پلاف، پیٹا بریڈ، بیف، ریسیپی،کچن، لال، مرچ پاؤڈر، مکس. لکھنے والے کا قصور نہیں ہے؛ یہ ہمارے تعلیمی اداروں کا قصور ہے جہاں ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ جب انگریزی لکھو تو وہ انگریزی ہو اور جب اردو لکھو تو اس میں اس میں جو الفاظ نہیں ہیں وہی کسی دوسری زبان کے ادھار لے سکتے ہیں. ہم اپنی جدد طرازی بہت تیزی سے کھو رہے ہیں.
ر - آفریدی Aug 17, 2014 09:04pm
زبیری صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ اکثر یہی چیز دیکھ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ ایک تو انٹر نیٹ پر ویسے بھی اردو تحریری مواد نہ ہونے کے برابر ہے، اوپر سے سالی رومن اردو نے ناک میں دم کیا ہوا ہے، مزید رہی سہی کچھڑی قسم کی اردو، اردو کا بیڑا غرق کررہی ہے۔ عام بول چال میں دستیاب رائیج اصطلاحات کے باوجود متبادل الفاظ کا استعمال یقینا‍ً اچھی بات نہیں ہے۔ ڈان اردوڈاٹ کوم اور بلاگر خواتین و حضرات سے گذارش ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں۔ (کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو لکھنے کے لئے آپ کو[یہاں سے مدد مل سکتی ہے][1]) [1]: http://www.mbilalm.com/urdu-installer.php
آشیان علی Aug 18, 2014 12:05pm
@یمین الاسلام زبیری: جب ہماری روایات میں عربی. مشرقی یا مغربی روایات مکس ہو سکتی ہیں.ثقافت اور لباس میں دوسرے بر اعظموں کے انداز مکس ہو سکتے ہیں. تو زبان میں کیوں نہیں. ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ فاتح اور عظیم قوموں کی زبان رسوم، روایات، ثقافت اور کھیل کمتر قوموں میں رائج ہوتی ہیں. ہماری روز مرہ کی بول چال میں انگریزی الفاظ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے مغربی کھیلوں لباس اور دیگر کی پیروی بھی بہت ذیادہ بڑھ گئی ہے. جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بھی قدرت کے اصول کے تحت عظیم قوموں کی نقالی یا پیروی کر رہے ہیں. اردو کے قدردان ویسے تو اردو کو لشکری زبان بولتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں. مگر روز مرہ پولے جانے والے انگریزی کے چند الفاظ پر تنقید اردو کے لشکری ہونے کو بھی مشکوک بنا رہا ہے. مجھے عرض صرف اتنا کرنا ہے اردو میں عربی الفاظ کے استعمال پر بھی اگر اتنا ہی شدید ردعمل ہوتا تو بھر آپ کی بات کی تائید کی جا سکتی تھی . وگرنہ یہ اردو سے محبت نہیں بلکہ انگریزی سے حسد ہی قرار دی جا سکتی ہے. راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال والوں نے تو اردو کے نام پر ایک نئی زبان ایجاد کر لی ہے کبھی جا کے دیکھ لے کوئی بورڈ آویزاں ہے جس پر لکھا ہے بچہ گان وارڈ !

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025