سمندر کی ان دیکھی سرحدیں پار کرنے والے مچھیرے

26 اگست 2014
کراچی کے عبدالشکور اپنے بچوں کے ہمراہ، جنہوں نے ہندوستانی جیل میں دو سال قید گزارنے کے بعد ماہی گیری کا پیشہ ترک کردیا ہے۔ —. فوٹو بشکریہ نیویارک ٹائمز
کراچی کے عبدالشکور اپنے بچوں کے ہمراہ، جنہوں نے ہندوستانی جیل میں دو سال قید گزارنے کے بعد ماہی گیری کا پیشہ ترک کردیا ہے۔ —. فوٹو بشکریہ نیویارک ٹائمز

کراچی: پاکستان کے صنعتی حب کراچی کے کنارے تنگ گلیوں اور ایک کمرے کے مکانات میں رہنے والے مچھیرے ایک خستہ حال بندرگاہ کے ذریعے موسم گرما کے ماہی گیری سیزن کے لیے سمندر میں جانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

لیکن ایک شخص کہیں نہیں جارہا ہے۔ ایک دوسرا مچھیرا میدان میں اس کے جال کی مرمت کررہا ہے، جبکہ عبدالشکور اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڈی پر جھکا قالین کی بُنائی میں مصروف ہے۔

عبدالشکور کا کہنا ہے کہ پندرہ برس کشتیوں پر گزارنے کے بعد وہ ایک نئے پیشے کی تلاش میں تھے، ان کی اہلیہ زاہدہ کے اس فیصلے کی ان کے دل نے تصدیق کردی۔

زاہدہ نے کہا ’’وہ دوبارہ کشتی پر میری لاش پر سے گزرنے کے بعد ہی سوار ہوسکیں گے۔‘‘

وہ مضبوط لہجے میں بولیں ’’میں انہیں جانے نہیں دوں گی۔‘‘

ہندوستانی جیل میں دو سال کی قید گزارنے کے بعد چونتیس برس کے عبدالشکور حال ہی میں کراچی واپس لوٹے ہیں۔

عبدالشکور کی داستان معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں شایع ہوئی ہے، جس کے مطابق وہ پاکستان اور ہندوستان کے ان کئی ہزار مچھیروں میں سے ایک ہیں، جنہیں حالیہ برسوں کے دوران مخالف ملکوں کی بحریہ کی جانب سے سمندر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان ماہی گیروں پر سرحد پار کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، لیکن وہ اس سرحد کو نہیں دیکھ پاتے اور انہیں نہیں معلوم ہوتا کہ متنازعہ محل وقوع حقیقی معنوں میں کہاں ہے۔

یہ جھگڑا 1960ء سے چلا آرہا ہے، جب پاکستان اور ہندوستان کا پہلی مرتبہ سرکریک کی حیثیت پر اختلاف پیدا ہوا تھا۔

سرکریک ایک آبنائے ہے، جو پاکستان کے صوبہ سندھ اور ہندوستانی ریاست گجرات کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔

اس کے بعد سے یہ تنازعہ اس دلیل کے ساتھ وسیع ہوتا گیا کہ زمینی سرحد کو کس طرح بحیرہ عرب میں آگے بڑھنا چاہیٔے۔

کئی سالوں سے اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی حکومتوں نے سروے کروایا ہے، مذاکرات منعقد کیے ہیں اور سمجھوتوں کی تجاویز دی ہیں۔

جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جب پاکستان پر حکمران تھے، تو وہ اپنے ہندوستانی ہم منصب منموہن سنگھ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے دوران ایک تصفیہ کے قریب پہنچ گئے تھے۔

لیکن جنرل مشرف کو 2008ء میں معزول کردیا گیا، اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرکریک کی طرح کئی بہت سے مسئلے حل طلب رہ گئے۔

نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ہر سال مچھیروں کی درجنوں کشتیاں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے اس الزام کے تحت پکڑ لی جاتی ہیں، کہ انہوں نے دشمن ملک کی بحری سرحد کی جانب سے مداخلت کی ہے۔

ان مچھیروں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں وہ اکثر کئی سال قید رہتے ہیں، انہیں صرف اس صورت میں رہائی نصیب ہوتی ہے کہ جب دونون ملکوں کے درمیان امن عمل شروع کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق اس وقت 249 ہندوستانی مچھیرے پاکستانی جیلوں میں قید ہیں، جبکہ 131 پاکستانی ہندوستان میں زیرحراست ہیں۔

ہندوستان کی خارجہ امور کی وزارت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ تقابلی اعدادوشمار باآسانی دستیاب نہیں۔

اگرچہ ان مچھیروں کے ساتھ ایک مجرموں کا سا برتاؤ کیا جاتا ہے، تاہم ان کی بہتر وضاحت یہی ہوگی کہ یہ تاریخ اور جغرافیہ کا شکار ہیں، جنہیں سرحدوں کے بغیر ایک نقشے پر تجارت کرنے پر سزا دی جارہی ہے۔

عبدالشکور کا کہنا ہے کہ 2012ء میں جب ان کشتی ایک تباہ شدہ جہاز کے قریب پہنچی تو اس کو ہندوستانی بحریہ کی جانب سے ضبط کرلیا گیا۔

اس دن پانچ اور کشتیاں بھی پکڑی گئی تھیں، اور سب کو گجرات کی ایک بندرگاہ پر لے جایا گیا۔

عبدالشکور کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکام نے چھ جہازوں کے کپتانوں کو گرفتار کرلیا، اور ان کے عملے کو جیل میں ڈال دیا۔ جہاں ان کی ملاقات دیگر پاکستانیوں سے ہوئی، ان میں سے ایک نے عبدالشکور کو بتایا کہ وہ بیس سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہے۔

ماہی گیری کے سیزن کے آغاز کے ساتھ ہی دونوں ملکوں میں یومِ آزادی کی تقریبات جاری ہیں۔ لیکن مچھیروں کے لیے سرحد واحد چیلنج نہیں ہے، جس کا انہیں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ابراہیم حیدری پر جہاں ماہی گیروں کی بڑی تعداد اپنے ایک مہینے کے سفر کے لیے برف کے بڑے بڑے بلاکس اپنی کشتی پر لاد رہے ہیں، اور سبزیاں اکھٹا کررہے ہیں۔

ان مچھیروں کو اپنے کاروبار میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھے موسم میں پاپلیٹ اور جھینگے لانے کی وجہ سے کشتی کے عملے کا ہر رکن تقریباً چوبیس ہزار روپے کمالیتا ہے، لیکن موسم خراب ہو تو دو ہزار روپے بھی مشکل سے ملتے ہیں۔

عبدالشکور جو قالین بن رہے تھے، کہنے لگے کہ وہ اب بھی سمندر میں جانے کے آرزو مند ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں