• KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:05pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:05pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm

نائنٹیز کا پاکستان -- 5

شائع September 3, 2014
انتخاب کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہلی تقریر میں صدر لغاری نے آٹھویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ کیا -- اے ایف پی فوٹو
انتخاب کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہلی تقریر میں صدر لغاری نے آٹھویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ کیا -- اے ایف پی فوٹو

یہ اس بلاگ کا پانچواں حصّہ ہے۔ پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے حصے کے لیے کلک کریں۔


بینظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت 1993-96

اکتوبر 1993ء میں تازہ انتخابات منعقد کروائے گئے۔ تعداد میں مسلم لیگ سے کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں 86 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ مسلم لیگ نے 72 نشستوں پر برتری حاصل کی۔

صوبائی انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور جونیجو لیگ پر مشتمل اتحاد نے پنجاب میں حکومت قائم کی، صوبہ سرحد میں مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی کے اتحاد نے حکومت قائم کی، سندھ میں پیپلز پارٹی نے واضح برتری حاصل کی اور بلوچستان میں مسلم لیگ نے عوامی نیشنل پارٹی کے تعاون سے حکومت تشکیل دی۔

پنجاب میں دو سو چالیس میں سے صرف سولہ نشستوں والی جماعت کے راہنما منظور وٹو نے (پیپلز پارٹی کے بھرپور تعاون کے باعث) وزارت اعلیٰ حاصل کی۔

صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کے رکن پیر صابر شاہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، بلوچستان میں مسلم لیگ کے امیدوار نواب ذوالفقار مگسی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید عبداللہ شاہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

نومبر 1993ء میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار فاروق لغاری اور مسلم لیگ کے وسیم سجاد کے مابین تھا۔ فاروق لغاری نے 274 جبکہ وسیم سجاد نے 168 ووٹ حاصل کیے۔

انتخاب کے بعد مقننہ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی پہلی تقریر میں صدر مملکت فاروق لغاری نے آٹھویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ بینظیر صاحبہ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ لغاری صاحب کے انتخاب کے باعث آٹھویں ترمیم اگلے پانچ سال کے لیے غیر موثر ہو جائے گی۔

تازہ انتخابات سے قبل مبینہ طور پر بینظیر بھٹو کو صفحہء ہستی سے مٹانے کا ایک اور منصوبہ تیار تھا جس کی ذمہ داری رمزی یوسف نامی دہشت گرد پر ڈالی گئی تھی۔

شریف حکومت کے خاتمے کے ایک ہفتے بعد مبینہ طور پر رمزی یوسف نے دو افراد، عبدالحکیم مراد اور عبدالشکور کے ہمراہ بلاول ہاؤس کا رخ کیا۔ اس آپریشن کے لیے اسلحہ صوبہ سرحد میں پبّی کے علاقے سے خریدا گیا تھا۔

آخری وقت پر رمزی اور اس کے ساتھیوں کو پولیس نے بلاول ہاؤس کے باہر بم رکھتے دیکھ لیا اور وہ لوگ جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔ بم رمزی کے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا تو اس کے ساتھیوں نے اسے زخمی حالت میں ٹیکسی میں ڈالا اور فرار ہو گئے۔

سن 1993ء میں سیلاب کے باعث کپاس، چاول اور گنےّ کی فصلیں شدید متاثر ہوئیں اور معاشی لحاظ سے پاکستان کی حالت بد سے بدتر کی جانب بڑھ رہی تھی۔

ان حالات میں نئی حکومت کی توجہ معیشت سے زیادہ سیاسی جوڑ توڑ پر مرکوز تھی۔ اس دور میں تو صدر بھی محترمہ کی اپنی جماعت کا تھا اور اس صورت حال کا بھر پور فائدہ مخالفین کو کچلنے میں لگایا گیا۔

صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں چھانگا مانگا کی یاد تازہ کی گئی اور آزاد امیدواروں کو مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے کارندے پیسوں سے بھرے بریف کیس لیے آزاد ارکان اسمبلی کو ورغلاتے رہے۔

گورنر سرحد کی جانب سے وفاق کو رپورٹ بھیجی گئی کہ صوبائی حکومت اپنی خدمات ادا کرنے سے قاصر ہے اور صدر صاحب کے حکم پر صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ صدارتی حکم نامے کے مطابق وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کو برخواست کر دیا گیا۔

اس دوران پیپلز پارٹی کو صوبے میں حکومت بنانے کا موقعہ فراہم کیا گیا۔ صابر شاہ نے وفاق کے اس اقدام کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا، البتہ عدالت نے وفاق کے حق میں فیصلہ سنایا۔

اس غیر جمہوری اقدام کی ملامت کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور ملک گیر ہڑتالیں منعقد کیں۔ نواز شریف صاحب، بی بی کی معاشی بے ظابطگیوں کے متعلق فائلیں منظر عام پر لائے۔

انہی دنوں مہران بنک کے صدر یونس حبیب کی گرفتاری اور انکے انکشافات نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا۔ یونس حبیب کے بیانات میں سے ایک بیان یہ بھی تھا کہ فاروق لغاری نے بنجر زمین مہنگے داموں بینک کو بیچی اور اس سے منافع کمایا تھا۔ نواز شریف صحافیوں کی ایک ٹولی سمیت ڈیرہ غازی خان پہنچے اور اس بنجر زمین کا دورہ کیا۔

ٰ(یاد رہے کہ یونس حبیب مہران بنک سکینڈل کا مرکزی کردار تھے، راز فاش کرنے کے جرم میں انکی اہلیہ کو ستمبر 1995ء میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا)

جواب میں وفاقی حکومت نے نواز دور میں انٹیلی جنس کے سربراہ برگیڈیر امتیاز کو پہلی بینظیر حکومت کے خلاف سازش تیار کرنے کے جرم میں گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔

شریف خاندان کے خلاف کھاتے کھولے گئے اور میاں محمد شریف کو حوالات کی سیر کروائی گئی۔ نواز شریف صاحب نے بھٹو صاحب کی یاد تازہ کرتے ہوئے ٹرین پر پشاور سے کراچی کا دورہ کیا اور ہر بڑے شہر میں حکومت مخالف تقاریر کیں۔ ان کی جماعت کی پکار پر اکتوبر 1994ء میں ملک گیر ہڑتال کی گئی۔

سرحد کے بعد اقتدار پر قبضے کا کھیل پنجاب اسمبلی میں بھی کھیلا گیا۔ ستمبر 1995ء میں وفاق کی جانب سے گورنر کو صوبائی حکومت کے اختیارات سنبھالنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔

اس سے قبل وٹو کابینہ کے پندرہ ارکان نے وزیر اعلیٰ پر غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور اپنے استعفے پیش کر دیے تھے۔ وٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں کو مستند الزامات کی عدم موجودگی میں گرفتار کیا گیا۔

گورنر نے وٹو صاحب کو صوبائی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا پیغام دیا لیکن وٹو صاحب اس کوشش میں ناکام ٹھہرے، سو انہی کی جماعت کے عارف نکئی کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر منتخب کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کو سینئر وزیر کا عہدہ اور وزیر اعلیٰ جیسے اختیارات سونپ دیے گئے۔ منظور وٹو کو خصوصی فنڈ خردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

سن 1993 ء کے انتخابات میں بینظیر کے بھائی مرتضیٰ بھٹو نے شہید بھٹو جماعت کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں ایک نشست جیتی۔ مرتضیٰ نے اپنے والد کی وفات کے بعد معمر قذافی اور یاسر عرفات کے تعاون سے 'الذوالفقار' نامی ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد ضیاء الحق کو قتل کرنا اور انکی حکومت ختم کرنا تھا۔

اس تنظیم کا سب سے مشہور ’کارنامہ‘ ایک پاکستانی جہاز اغوا کر کے اسے کابل لے جانا تھا۔ بعدازاں اس تنظیم کو ہندوستانی حکومت سے بھی کچھ مدد ملی لیکن راجہ انور کی یاد داشتوں کے مطابق الذوالفقار بری طرح ناکام رہی۔

اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ مرتضیٰ کی جذباتی سوچ اور لاپرواہی تھی۔ بینظیر صاحبہ نے مرتضیٰ کی کامیابی کے بعد اپنی والدہ نصرت بھٹو پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ہی مرتضیٰ کو واپس پاکستان بلایا اور صوبائی نشست جیتنے میں اسکی مدد کی۔

مرتضیٰ نے ایک موقعے پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ پیپلز پارٹی وہ جماعت نہیں رہی جو غریبوں اور کسانوں کے نام پر بنائی گئی تھی۔ انہی دنوں بھٹو صاحب کی ایک برسی کے موقعہ پر نصرت بھٹو اور مرتضیٰ نے پیپلز پارٹی کے کارکنان کو گڑھی خدا بخش پہنچنے سے روکنے کیلئے علاقے کے گرد اپنے کارکنان پر مشتمل ایک حصار بنوا دیا۔ بینظیر صاحبہ نے پولیس کو حکم دیا کہ حصار ختم کروایا جائے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جھڑپ میں کچھ کارکنان مارے گئے۔

(جاری ہے)


ریفرنسز:

  1. Constiutional and Political History of Pakistan. Hamid Khan. Second Edition. Oxford University Press

    1. Pakistan in the Twentieth Century: A Political History. Lawrence Ziring. Oxford University Press
    2. Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan. Adrian Levy,Catherine Scott-Clark

4.The Terrorist Prince.The Life and Death of Murtaza Bhutto.Raja Anwar

  1. ISLAMIC PAKISTAN: ILLUSIONS & REALITY By Abdus Sattar Ghazali (http://www.ghazali.net/book1/contents.htm)
عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 10 دسمبر 2024
کارٹون : 9 دسمبر 2024