خواندگی کا عالمی دن اور پاکستان

21 ستمبر 2014
فوٹو بشکریہ گلوبل پوسٹ
فوٹو بشکریہ گلوبل پوسٹ
فوٹو بشکریہ گلوبل پوسٹ
فوٹو بشکریہ گلوبل پوسٹ

ہمیشہ کی طرح اس سال بھی 8 ستمبر کو ساری دنیا نے خواندگی کا عالمی دن منایا، لیکن پاکستان میں یہ دن بھی سیاست کی مکسڈ پلیٹ اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی نذر ہوگیا- میڈیا کو بھی سیاست کی چٹ پٹی چاٹ نے اپنی گرفت میں لے رکھاہے۔ جو وقت بچ جاتا ہے اس میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی تصویری کہانیاں دکھائی جاتی ہیں۔

اگرچہ ان دنوں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جاری ہے، لیکن ہمارے نام نہاد عوامی نمائندوں کی جانب سے نا تو کسی گہری تشویش کا اظہار ہوا اور نا ہی اس آفت کا مقابلہ کرنے کا کوئی لائحہ عمل سامنے آیا ہے۔ ہاں البتہ متاثرہ آبادی کی امداد کے لیے حکومت کی جانب سے سخاوت کا مظاہرہ ہورہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ سیلاب اگر ہمارے مقدر میں لکھے ہیں تو ہمارے پاس وہ ویژن کیوں نہیں کہ ہم پانی کی اس تباہ کن قوت کو تعمیری قوت میں بدل دیں؟

حکومت پنجاب نے پچھلے دنوں اپنی اعلیٰ کارکردگی کے اشتہارات تو خوب خوب دکھائے، لیکن خواندگی کا یہ عالمی دن ان کے لیے ایک اور سنہری موقع تھا کہ وہ اپنے دانش اسکولوں اور لیپ ٹاپ کی تقسیم کا پرکشش ڈھنڈھورا پیٹتی۔ لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ جو ایک طرف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف سیلاب کے پانی میں گھٹنوں گھٹنوں ڈوبے نظر آتے ہیں، ان کے کسی مشیر خاص کو خیال نہ آیا کہ اپنی وزارت تعلیم کو جھنجھوڑتے کہ اٹھو جاگو، پانی سروں سے گزر رہا ہے-


مزید پڑھیے: پاکستان میں تعلیم کی صورتحال اندازوں سے بھی زیادہ بدترین


بنیادی حقوق کا قانون ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیتا ہے اور کم سے کم ابتدائی تعلیم مفت فراہم کرنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے- پاکستان میں ہر دور حکومت میں، خواہ وہ جمہوری دور ہو یا آمریت کا دور، تعلیم کو عام کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے، تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی رہیں، جن میں سے بعض تو منظر عام پر بھی نہ آئیں، ذرائع تعلیم پر تجربے کیے گئے، جو آج بھی جاری ہیں- ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو، یا اردو، یا علاقائی زبانیں؟ اور جب تک ہم اس بنیادی مسئلے کو طے نہیں کرتے، ہم صحیح سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتے-

ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو وہاں ہائی اسکول تک کی تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، یعنی سرکاری اسکول، جن کو چلانے کے لیے پورا پورا انتظامی ڈھانچہ موجود ہے جس کے لیے یونین کونسلیں ذمہ دار ہیں- ان اسکولوں کا مقابلہ ہمارے یہاں کے سرکاری اسکولوں سے تو کیا ہی نہیں جاسکتا-

ان کے اسکول اعلیٰ درجے کے تعلیمی ساز و سامان سے لیس ہیں تو ہمارے اسکولوں میں یہ چیزیں تو کیا، نہ تو طالب علموں کے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ ہے اور نہ ہی انھیں پڑھانے کے لیے قابل اساتذہ- بلکہ پرائیویٹ اسکولوں میں بھی جہاں ٹیوشن فیس کے نام پر ہزاروں اور داخلہ فیس کے نام پر لاکھوں روپیہ لیے جاتے ہیں اس معیار کی سہولتیں موجود نہیں ہیں-

پاکستان میں تعلیم جیسے اہم شعبے کو نجی سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جن کے لیے تعلیم بھی ایک جنس ہے جسے بازار میں بیچ کر منافع کمایا جاسکتا ہے-

تعلیم کا شعبہ بے غرض ماہرین کی توجہ اور خدمات کا طلبگار ہے- ہمارا ملک، جو خواندگی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے، بدقسمتی سے ایسے افراد کی گرفت میں ہے جن کے پاس کوئی ویژن نہیں- چند دن ہوئے سندھ کے سینیئر وزیر تعلیم کا ایک بیان پڑھنے کا موقع ملا (ڈان- 8 ستمبر 2014) جو عالمی خواندگی کے دن کے موقع پر دیا گیا تھا- موصوف نے فرمایا ان کا شعبہ اس تجویز پر غور کررہا ہے کہ،"میٹرک، ایچ ایس سی اور بی-اے پاس طالب علموں کو'بیس نمبروں' کا پیکیج دیا جائے جو رضاکارانہ طور پر سندھ کے ناخواندہ لوگوں کو تعلیم دینگے"، ان کا خیال ہے کہ اس سے سندھ کے تقریباً پانچ لاکھ بچے مستفید ہونگےاور اس طرح صوبے میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوگا- انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ سندھ میں 1500 مربوط اسکولوں کے کیمپس قائم کیے جائیں گے، جن کے لیے ہیڈ ٹیچر کا تقرر نیشنل ٹیسٹنگ سروس (NTS) کے ذریعہ کیا جائے گا- اساتذہ کو دھمکی بھی دی گئی کہ فرائض کو دیانتداری سے انجام نہ دینے والوں کے خلاف "ٹارگٹڈ آپریشن" کیا جائے گا۔


مزید پڑھیے: پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی جنگ


بیان کا پہلا حصہ سنجیدہ تجزیہ چاہتا ہے-صرف "بیس نمبروں" کا پیکج اور پانچ لاکھ بچوں کو خواندہ بنانے کا ہدف- اس کو کہتے ہیں ہلدی لگے نہ پھٹکری، اور رنگ تیکھا آئے- یہ نسخہ کس قدر اکسیر ثابت ہوسکتا ہے اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتی ہوں-

یہ تو رہی سندھ کی بات لیکن پچھلے چند دنوں میں پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کی جانب سے اس معاملے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا-

تعلیم کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے- ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ہر معاملے میں احادیث کا سہارا لیتے ہیں- حال ہی میں مجھے ایران کے مشہور صوفی شاعر فرید الدین عطار، جو بارہویں صدی میں نیشاپور میں پیدا ہوئے، کی کتاب 'منطق الطیر' کا انگریزی ترجمہ The Conference of The Birds پڑھنے کا اتفاق ہوا- وہ اپنی طویل نظم میں اسی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں- ان اشعار کو پڑھیئے:

ملک چین کا ذکر ہے، رات اندھیری تھی اور چاند کا کوئی پتہ نہ تھا

انسانوں نے پہلی بار ایک سیمرغ دیکھا

اس نے اپنا ایک پر ہوا میں جھاڑا

جس کی شہرت دور دور تک پہنچی


چین میں یہ پر آج بھی دیکھا جاسکتا ہے

جس کے بارے میں یہ حدیث آپ نے ضرور سنی ہوگی

علم حاصل کرنا ہو تو چین بھی جاؤ

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سارے عہد و پیماں صرف احادیث کی تکرار تک محدود ہیں- ہم اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے-

تعلیم کو عام کرنے کے لیے 'بیس نمبروں' کے پیکج سے ہٹ کر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- اس کے لیے ہمیں ٹھوس بنیادوں پر ہنگامی سطح پر منصوبہ بندی کرنے کی ضروت ہے- بجٹ کا کم سے کم چار فی صد اس کے لیے مختص کرنا ہوگا، اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا تعلیمی نظام بدعنوانیوں اور سفارشی کلچر سے پاک صاف ہو- تعلیم کوسیاسی مفادات کے تابع کردینا قوم کے حق میں زہر قاتل ہے-

حقیقت تو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں "خواندگی" کی تعریف بھی تبدیل ہوچکی ہے- ہم اپنے ملک میں اس شخص کو بھی خواندہ سمجھتے ہیں جو محض اپنا نام پڑھنا لکھنا جانتا ہے یا اپنے نام کے دستخط کرسکے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کا دائرہ پھیل چکا ہے اور کمپیوٹر سمیت بنیادی ٹیکنیکل علم اس میں شامل ہوچکا ہے-

بنیادی تعلیم کو ساری دنیا اسقدر اہمیت کیوں دیتی ہے؟ اس لیے کہ اس کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہے- تعلیم یافتہ قوم صحت کے اصولوں سے واقف ہوتی ہے- اگر آج ہماری قوم تعلیم یافتہ ہوتی تو ہمیں بار بار پولیو کے خاتمہ کی مہم روکنی نہ پڑتی اور نہ ہمیں سفر کی ذلت آمیز پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا- تعلیم یافتہ معاشروں میں بچوں کی شرح اموات انتہائی کم ہے، ان کی عورتیں زچگی کے دوران فوت نہیں ہوتیں، جنس کی بنیاد پر تفریق کا ان کے پاس تصور نہیں اور معاشی سرگرمیوں میں وہ برابر کی شریک ہیں- تعلیم یافتہ مہذب معاشرے اپنے حقوق سے واقف ہیں اور ان کے لیے لڑنا جانتے ہیں-


مزید پڑھیے: بڑا کام کریں -- تعلیم کو جی ڈی پی کا چار فیصد دیں


ترقی یافتہ ممالک میں لاِئبریریاں تعلیم کو پھیلانے کا اہم وسیلہ ہیں- ان ممالک میں ہر ہر محلے میں قائم لائبریریاں اپنے عوام کو'ایجوکیٹ' کرتی ہیں- یہ لائبریریاں محض ایسی عمارتیں نہیں ہیں جن کے شیلف بے جان کتابوں سے بھرے ہیں، بلکہ یہ معلومات تک رسائی کا ذریعہ ہیں- یہ علم کے خزانے ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے یہ قومی یک جہتی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں- اپنے اراکین کے لیے یہ سمینار منعقد کرتی ہیں، مقامی زبان سے ناواقف تارکین وطن کے لیے سکھانے کا انتظام موجود ہے، کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کے لیے ورک شاپس کا اہتمام کرتی ہیں، غرض کہ بچے ہوں یا بڑے، سب کی دلچسپی کا کوئی نہ کوئی سامان موجود ہے-

بد قسمتی سے ہم نے فروغ تعلیم کے معاملے میں کبھی بھی لائبریریوں کے کردار کا جائزہ ہی نہیں لیا- ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ابھی تک گھوسٹ اسکولوں کے مسئلے سے نہیں نمٹ سکی ہے۔ ہمارے پاس ابھی تک اسکول اصطبل بنا دِیئے جاتے ہیں، دہشت گرد انھیں بموں سے اڑاتے ہیں، انھیں جلا کر خاکستر کردیا جاتا ہے، اور لڑکیوں سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ اب زبانی جمع خرچ اور 'بیس نمبروں' کا پیکج ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے- ہمیں جاگنا ہوگا، اور اگر نہیں جاگے، تو مکمل تباہی ہی ہمارا مقدر ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں