میرے پیارے اسلام آباد!

اپ ڈیٹ 01 اگست 2015
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کی جانب دو دھرنے بھیجے ہیں، جنہوں نے آپ کا امن و سکون تباہ کر دیا ہے۔
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کی جانب دو دھرنے بھیجے ہیں، جنہوں نے آپ کا امن و سکون تباہ کر دیا ہے۔

!میرے پیارے اسلام آباد

میں بہت دنوں سے آپ کو خط لکھنے کا سوچ رہا تھا، لیکن پھر مجھ پر اپنے اتنے مسائل آن پڑے، کہ میں بالکل بھول ہی گیا۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کی جانب دو دھرنے بھیجے ہیں، جنہوں نے آپ کا امن و سکون تباہ کر دیا ہے، اور آپ کے پرفضا ماحول میں رہنے والوں کو بیزار کر دیا ہے۔

میرا یقین کریں، میرا ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ میں نے اپنے کچھ اندازے لگائے تھے، جن کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاجیوں کو پورا سفر اختتام تک طے نہیں کرنا تھا۔ شاید گوجرانوالہ یا گجرات تک جانا، یا پھر اسلام آباد تک پہنچ کر فوری طور پر واپس آجانا تھا۔ اس میں میری غلطی نہیں، کہ وہ اب تک واپس نہیں آئے، اور آپ کو ان احتجاجیوں کے ہجوم کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ میں نے ان منچلوں کو جنم نہیں دیا، یا شاید ایسا کہا جائے، کہ اکیلے نہیں جنم دیا۔ لیکن پھر بھی میں ان کو آپ کی جانب آنے دینے کے لیے خود کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ مجھے معاف کردیجیئے کہ میں نے اپنی کمزور فصیلوں سے مارچ کے شرکاء کو باہر نکلنے دیا۔ مجھے اب سمجھ آگئی ہے، کہ ان لوگوں کو باہر نکلنے نہیں دینا چاہیے تھا۔ بلکہ انہیں اسی وقت یہیں پر روک دینا چاہیے تھا۔

میں نے کوشش کی تھی، سچی۔ کچھ لوگوں کو تو ماڈل ٹاؤن میں جون کی اس دوپہر گرا دیا گیا تھا۔ کنٹینر لگائے گئے تھے اور مارچ سے روکنے کے لیے انہیں کچھ چیزوں کی پیشکش بھی کی گئی تھی، لیکن یہ پھر بھی نہیں رکے۔ اس لیے میں نے پھر پنجاب پولیس کے کچھ سخت گیر افسران کو آپ کے قابل پولیس افسران کی مدد کے لیے بھیجا، لیکن میں جانتا ہوں کہ میری جانب سے کی گئی پہلی غلطی کی یہ کوئی تلافی نہیں ہے۔

ایک تجویز جس نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی، وہ یہ کہ میرے اپنے وزیر اعلیٰ شہباز شریف استعفیٰ دے دیں۔

مجھے وہ بہت عزیز ہیں۔ سچ کہوں، تو آپ کے پاس موجود وزیر اعظم سے بھی زیادہ۔ مجھے یقین ہے کہ استعفے کے ان بے منطق کے مطالبوں سے اگر صرف ایک شخص کو بچایا جاسکتا ہے، تو صرف شہباز شریف ہی ہیں جن کو بچایا جانا چاہیے۔

ہاں یہ جانبداری ہے۔ چھوٹے شریف کے لیے میری اس جانبداری کے لیے میں معافی نہیں مانگوں گا۔ میں صرف جمہوری لیڈروں اور جمہوریت کے محافظوں کی راتوں کی نیند خراب ہونے کے لیے معافی چاہتا ہوں۔

ویسے تو روٹین میں کافی پیکج آپ کی جانب بھیجے جاتے رہے ہیں، اور آپ نے انہیں بخوبی وصول کیا ہے، لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں، کہ آپ کی جانب بھیجے گئے اس پارسل کی قابلیت سے میں تھوڑا بےخبر تھا۔

مثال کے طور پر، ٹی وی پر نظر آنے والے کئی چہروں کا تعلق یہاں سے ہے۔ کئی نام جو اب اسلام آباد میں بیٹھ کر ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہیں، یا اخباروں کے لیے کمنٹریاں لکھتے ہیں، یہاں سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن پھر انہوں نے لائن کراس کی اور اپنا نام پیدا کیا۔

مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا، کہ وہ لاہور سے اسلام آباد جانے والے ان مسافروں سے اتنا تنگ آجائیں گے، کہ نئے پاکستان سے پاکستان آنے والے ان احتجاجیوں کو غیرقانونی اور غیرآئینی تارکین وطن قرار دے کر ان کو روکنے کے لیے سب سے آگے موجود ہوں گے۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا، مجھے معلوم نہیں تھا، کہ لوگوں کے اس غول کے پاس وہ آداب اب تک نہیں ہیں، جو ان سے پہلے جانے والے ایک عرصے پہلے سیکھ چکے تھے۔ ایک جنگلی سور کو مار گراتے ہوئے دیکھنا بہت ہی تکلیف دہ منظر تھا، لیکن مجھے گولی چلانے کے بعد کی افسردگی جیسا افسردہ کرنے کے لیے انہیں اس حد تک جانے کی ضرورت نہیں تھی۔

اور یہ افسردگی عمران خان کی جانب سے پولیس تحویل سے اپنے کارکنوں کو چھڑائے جانے، طاہر القادری کی جانب سے کرنسی نوٹوں کی تحریر میں ایک اور اضافے، اور اس شرمناک گانے بجانے کے اسلام آباد کے پاک و پاکیزہ ماحول کو آلودہ کرنے سے پہلے کی ہے۔

پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی جانب پیش قدمی، پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں، اپنے تحفظ کے لیے فکرمند صحافیوں کا پیٹا جانا، یہ سب باتیں ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوں گی، جنہوں نے اپنا ٹی وی پہلے آن نہیں کیا تھا۔

میں اتنا لاپرواہ بھی نہیں تھا۔ میں نے بھی سپریم کورٹ کی گرلوں پر کپڑے سوکھتے ہوئے دیکھے تھے۔ اور اس وقت تو میرا خوف حقیقت میں تبدیل ہوگیا، جب میں نے صرف بنیانوں میں ملبوس کچھ لوگوں کو سڑک پر نہانے کے لیے لائن لگاتے ہوئے دیکھا۔ یہ کوئی کینال نہیں، بلکہ اسلام آباد تھا، اور ایسا کرنے سے ان کے آبائی شہر لاہور کی کچھ اچھی تشہیر نہیں ہوئی۔

سب کے سامنے اس طرح کی حرکتوں کی جو مذمت ہوئی، وہ بہرحال یقینی تھی، اور اسے نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ مجھے معلوم ہوا، کہ مظاہرین کہ یہ حرکتیں صرف دیکھنے میں تکلیف دہ نہیں تھیں، بلکہ ان سے ایک دو وبائی امراض پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ اور اگر یہ بھی شرمناک نہیں تھا، تو کچھ لوگوں نے یہ ضرور بتایا کہ مظاہرین کے لشکر کس طرح وفاقی دارالحکومت میں گھناؤنی تقریرں کر رہے ہیں۔

میں سمجھ سکتا ہوں، کہ میں نے آپ کو اتنا نقصان پہنچایا ہے، کہ جس کی تلافی کرنا اب مشکل لگ رہا ہے۔ مجھے اس بات پر پورا یقین ہے، کہ آپ کی تربیت یافتہ، اور آداب سے بھرپور فورس پھیلایا گیا سارا کچرہ اور گندگی صاف کرنے میں کامیاب ہوگی۔

ویسے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، کہ آئندہ آپ کی جانب بھیجے جانے والے پارسلوں کے بارے میں میں مزید احتیاط کروں گا۔ آپ کو صرف اتنا کرنا ہوگا، کہ ان سے چھٹکارہ پانے اور انہیں واپس بھیجنے کے لیے انتظام کریں۔

فقط ہمیشہ آپ کے دل کے پاس رہنے والا، آپ کا پیارا لاہور۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں