عبدالقادر گیلانی کو گرفتار کیا جائے، مقتول کے اہلِ خانہ کا اصرار

10 اکتوبر 2014
مقتول ملک طاہر۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
مقتول ملک طاہر۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

لاہور: اگرچہ پولیس نے 23 برس کے ملک طاہر کے قتل میں ملؤث چھ سیکورٹی گارڈز کو اپنی حراست میں لے لیا ہے، تاہم پھر بھی مقتول کے اہلِ خانہ جمعرات کے روز اس کیس میں نامزد واحد ملزم اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کی گرفتاری کے لیے پولیس پر دباؤ ڈالتے رہے۔

پولیس کے تفتیش کار عبدالقادر گیلانی کو گرفتار کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے، لیکن چونکہ یہ انتہائی حساس نوعیت کا تھا، اس لیے انہیں اپنی تفتیش میں شامل کیے رکھا۔

مقتول ملک طاہر کے والد ملک تنویر نے بتایا ’’میرا بنیادی مطالبہ حکومتِ پنجاب اور پولیس حکام سے یہ ہے کہ عبدالقادر گیلانی کو گرفتار کیا جائے، جو فائرنگ کے واقعہ کے وقت اپنے سیکورٹی گارڈز کے ساتھ سفرکررہے تھے، اور جائے واردات سے فوری طور پر فرار ہوگئے تھے۔ یہ فائرنگ اُن (قادر گیلانی) کے کہنے پر ہی کی گئی تھی۔‘‘

ملک تنویر ایک پراپرٹی ڈیلر ہیں، اور ستوکاتلہ میں پنجاب گورنمنٹ ایمپلائیز کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے فیز ٹو میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بی کام کا امتحان دینے کے بعد ایک نجی کمپنی کے ساتھ کام کررہا تھا، اس روز وہ اور اس کا بڑا بھائی وحید موٹرسائیکل پر آرہے تھے، انہوں نے عبدالقادر گیلانی کی گاڑی اور اس کے ساتھ دو حفاظتی گاڑیوں کو ایک اسپیڈ بریکر پر صرف اورٹیک کرنے کی جرأت کی تھی۔

انہوں نے کہا ’’نجی گاڑیوں کے قافلے میں سے ایک میرے بیٹے کی موٹرسائیکل کے قریب سے گزری، اس گاڑی میں سوار سیکورٹی گارڈز نے اس کو ہاتھ سے گندہ اشارہ کیا، اور پھر ان میں سے ایک نے میرے نوجوان بیٹے پر گولی چلادی، جو فوری طور پر ہلاک ہوگیا۔‘‘

ملک تنویر نے بتایا ’’ایک خاتون کے ذریعے عبدالقادر گیلانی کے بارے میں وحید کو معلوم ہوا، ان خاتون کی کار کوعبدالقادر گیلانی کے حفاظتی دستے میں شامل ایک گاڑی نے اس وقت ٹکر ماری، جب وہ اپنے موبائل فون کے ذریعے قادر گیلانی کی گاڑی کو ان کے حفاظتی دستے کے ساتھ ڈی ایچ اے کے وائی بلاک میں داخل ہوتے وقت کی وڈیو بنارہی تھیں۔ اس بلاک میں قادری گیلانی کی رہائشگاہ ہے، اور جائے واردات سے بمشکل نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔‘‘

انہوں نے سوال کیا ’’کیا ایک عام آدمی کی وی وی آئی پی کی نظر میں کوئی قدر قیمت نہیں ہے، کیا اس کو اتنا حق بھی نہیں ہے کہ وہ آزادانہ سڑک پر سفر کرسکے؟‘‘

ملک تنویر نے کہا کہ پولیس نے ایک کلاشنکوف اور ایک شیل گرفتار ملزم کے پاس سے برآمد کرکے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ وہ اور ان کے دوسرے بیٹے وحید ایس پی سی آئی اے کے پاس جائیں گے، تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ انہوں نے اس ملزم کو بھی گرفتار کیا ہے، جسے وحید نے دیکھا تھا۔

اس واقعہ کو غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی واردات قرار دیتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ حکمران عام شہریوں کی قیمت پر وی وی آئی پی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔

مقتول ملک طاہر کے خالہ زاد بھائی تیمور احمد نے واضح کیا کہ طاہر ایک اچھا انسان اور پُرامن شہری تھا، اُس نے کبھی بُری صحبت اختیار نہیں کی تھی۔

انہوں نے بتایا ’’طاہر ایم کام کرکے روزگار کے لیے دبئی جانا چاہتا تھا۔ہمیں اب بھی یقین نہیں آتا کہ طاہر ہم سے دور چلا گیا ہے، اس لیے کہ وہ عید کی چھٹیوں کے دوران کافی متحرک تھا، اور وہ قربانی کا گوشت بانٹنے اور ڈیفنس کے علاقے میں کھلیوں کا کچھ سامان پہنچانے کے لیے کل گھر سے نکلا تھا۔‘‘

ڈی آئی جی انوسٹی گیشن صاحبزادہ شہزاد سلطان کا کہنا ہے کہ پولیس ان تمام لوگوں کو گرفتار کرے گی جو اس جرم کے مرتکب پائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے ملزمان میں سے ایک کو اپنی حراست میں لیا تھا، اور باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے مزید تفتیش کی جارہی ہے۔

صاحبزادہ شہزاد سلطان نے کہا کہ وہ اس وقت اس کیس کی حساسیت کی وجہ سے عبدالقادر گیلانی کے خلاف پولیس کی کارروائی پر کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کو جائے واردات پر قادر گیلانی کی موجودگی کا کوئی ثبوت اب تک حاصل نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عبدالقادر گیلانی کے خلاف کارروائی سے گریز کرنے کے لیے ان پر کسی حلقے سے کوئی دباؤ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے تفتیش کاروں نے گرفتار ملزم اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے ہیں۔

ایک تفتیش کار نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے ایک ڈبل کیبن پک اپ ٹرک، ایک ایس ایم جی ہتھیار اور شیلز کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والا ملزم تیس برس کا محمد خان ہے، جس کا تعلق سانگھڑ سے ہے، اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا ہے کہ اس نے موٹرسائیکل پر فائرنگ کی تھی۔

مذکورہ تفتیش کار نے بتایا کہ پولیس کی ایک ٹیم عبدالقادر گیلانی کے گھر پر پہنچی تھی، لیکن وہ اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبائی حکومت نے عبدالقادر گیلانی کی گرفتاری کے لیے اجازت دے دی ہے، جو فائرنگ کے واقعہ کے بعد سے لاپتہ ہیں۔

تفتیش کار نے کہا کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کیے جانے کے بعد حکومت کی جانب سے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے گارڈ نے پولیس کے سامنے بیان کیا ہے کہ عبدالقادر گیلانی کے حفاظتی دستے کی گاڑیوں کو موٹرسائیکل سوار مسلسل اورٹیک کررہا تھا، جس سے گارڈز پریشان ہوگئے اور انہوں نے مقتول کے پیر کا نشانہ لے کر گولی چلادی۔

اسی دوران ملک طاہر کی نمازِ جنازہ ان کے علاقے میں ادا کی گئی اور انہیں وحدت کالونی کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں