اسلام آباد: وزیراعظم کا آفس اس وقت وزارتوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال میں مصروف ہے، جس سے وفاقی کابینہ میں متوقع ردّوبدل اور ممکنہ توسیع کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اس مصروفیت سے آگاہ ایک سینئر سرکاری اہلکار کے مطابق ان دنوں وزیراعظم کے دفتر میں یہ سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی طور پر تیار کردہ سانچے کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔

نئے سانچے کے تحت وزارتی کارکردگی کا مختلف حساب کتاب سے اندازہ کیا جارہا ہے۔ ان میں پالیسی فیصلوں پر عملدرآمد کی حیثیت، ان اجلاسوں کی تعداد جس میں وزیر نے شرکت کی، غیرملکی دورے، مجموعی حاضری اور متعلقہ وفاقی سیکریٹریوں سے موصول ہونے والی خفیہ رپورٹیں شامل ہیں۔

وزیراعظم کے معاونِ خصوصی خواجہ ظہیر احمد اس جانچ پڑتال کے نگرانی کررہے ہیں، جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اب وہ آخری مرحلے میں ہے۔

اس کام میں شامل ایک اور اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’اہم وزراتوں کے کاموں کی وزیراعظم خود نگرانی کررہے ہیں، جن میں توانائی، منصوبہ بندی اور ترقیات اور قدرتی وسائل کے ساتھ دیگر وزارتیں شامل ہیں۔ کارکردگی کے آڈٹ سے ہی وہ ہر ایک شعبے کی مخصوص تفصیلات کی جانچ پڑتال کریں گے۔‘‘

مذکورہ اہلکار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کام کسی ایک مخصوص وزیر کے لیے یا ان کے خلاف سفارشات تیار کرنا نہیں، بلکہ اس کے بجائے گزشتہ ایک سال کے دوران وزارت کے مجموعی کاموں سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت کابینہ بیس وفاقی وزراء، دس وزیرِ مملکت اور تین مشیروں پر مشتمل ہے۔

آٹھویں ترمیم کے تحت پارلیمنٹ کے کل اراکین کا گیارہ فیصد کابینہ کا حصہ بن سکتا ہے۔

لہٰذا وزیراعظم نواز شریف اصولی طور پر قومی اسمبلی کے 342 اراکین اور 104 سینٹروں میں سے پچاس رکنی کابینہ رکھ سکتے ہیں۔

حکمران جماعت کے ایک سینئر رکن نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بہت سے لوگ پُرامید ہیں جو کابینہ میں ایک اہم قلمدان حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسے لوگ جو وزیراعظم کو جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب اس قسم کے انتخاب کا وقت آتا ہے، تو وہ اپنے ذاتی مشیر وں کو بھی حیران کرسکتے ہیں۔

کابینہ کے قلمدانوں کو دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو پیش کیے جانے کے امکان کے بارے میں پارٹی کے عہدے دار نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں 190 اراکین کی بھاری اکثریت کے ساتھ کابینہ میں توسیع پارٹی کے اپنے اراکین سے دی جائے گی، لیکن تقسیم کے بعد بچ رہنے والی وزارت ایک باہر کے فرد کو پیش کی جاسکتی ہے، خاص طور پر انہیں جنہوں نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں جاری احتجاجی دھرنوں کے خلاف مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا ہے۔

پارٹی کے عہدے دار نے کہا ’’جی ہاں، میڈیا میں تاخیر کے ساتھ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے بہت سے نام سامنے آئے ہیں، نہیں کابینہ میں وزارتوں سے نوازا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ محض قیاس آرائی ہی ہے، اس لیے کہ ہم پارٹی کے اندر ہیں اور جانتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں کے بارے میں کسی سے بیان نہیں کیا جاتا، جب تک کہ وہ حقیقی طور پر لے نہیں لیے جاتے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بات تو طے ہے کہ وفاقی وزیر خواجہ آصف، جو پانی و بجلی کے ساتھ دفاع کا قلمدان بھی رکھتے ہیں، اور پرویز رشید جن کے پاس قانون اور اطلاعات کی وزارتوں کے قلمدان ہیں، ممکن ہے کہ انہیں اضافی ذمہ داریوں سے فارغ کردیا جائے، تاہم صرف وزیراعظم فیصلہ کریں گے کہ کس کے پاس کون سا قلمدان برقرار رہے گا۔

حکمران پارٹی نے ڈان کو بتایا کہ کچھ وزراء کی جاب خطرے میں ہے، اس لیے کہ وزیراعظم ان کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں، لیکن انہوں نے ایسے وزارء کے نام بتانے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا مسلم لیگ ق کے سابق اراکین اسمبلی کی کابینہ میں شمولیت پر پارٹی کے اندر مخالفت کی جارہی ہے، جنہوں نے حال ہی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Oct 16, 2014 01:12pm
سب باتوں سے قطع نظر ایک اہم چیز یہ ہے کہ ہمارے ملک کی کابینہ میں تھوک کے حساب سے وزرا اور مشیر بھرتی کر لئے جاتے ہیں ایک طرف یہ عالم ہوتا ہے کہ ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی مقرر نہیں ہوتا ، عالمی معاملات ایک مشیر ہی سر انجام دے رہے ہوتے ہیں دوسری جانب اپنے اپنے رشتہ داروں کو نوازنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جاتے ہیں ، کابینہ کا مفہوم اور مطلب ہی چند قابل اعتماد ساتھی ہوتے ہیں جو کاروبار سلطنت چلانے میں وزیر اعظم کے معاون ہوتے ہیں ، اسکا مطلب پوری فوج بھرتی کر لینا نہیں ہوتا جب زیادہ لوگ کابینہ میں موجود ہوتے ہیں تو غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں کوئی اتفاق رائے نہیں ہوتا ، نہ صرف یہ بھاری کابینہ خزانے پر بوجھ ہوتی ہے بلکہ ان اراکین میں آپس میں بھی کبھی اتفاق نہیں ہو سکتا ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔