یونس ’ٹیم مین‘ کے طور پر یاد رکھے جانے کے خواہشمند

شائع November 1, 2014

ابوظہبی: آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں ڈبل سنچری بنانے والے یونس خان نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ایک ’ٹیم مین‘ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے۔

یونس نے آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگ میں 213 رنز کی شاندار باری کھیلی جس سے تقویت پاتے ہوئے قومی ٹیم نے 570 رنز چھ کھلاڑی آؤٹ پر اننگ ڈکلیئر کر دی تھی اور پاکستان نے آسٹریلیا کو پہلی انگ میں 261 رنز پر اؤٹ کر کے 309 رنز کی بھاری سبقت حاصل کر لی ہے۔

یہ اننگ کی بدولت پاکستان آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتنے کے امکانات مزید روشن کر لیے ہیں جہاں اس سے قبل دبئی میں مایہ ناز بلے باز کی دونوں اننگ میں سنچریوں کی بدولت پاکستان نے مہمان ٹیم کو 221 رنز سے شکست دے کر سیریز میں 1-0 کی برتری حاصل کر لی تھی۔

اپنی سابقہ اننگ کے دوران یونس نے ٹیسٹ کرکٹ میں آٹھ ہزار رنز کا سنگ میل بھی عبور کرتے ہوئے یہ یہ کارنامہ سرانجام دینے والے تیسرے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

اس سے قبل جاوید میانداد اور انضمام الحق کو یہ اعزاز حاصل ہے جو بالترتیب آٹھ ہزار 832 اور آٹھ ہزار 829 رنز بنانے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود یونس خود کو پاکستان کے بہترین بلے باز ماننے کو تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں جاوید میانداد، انضمام الحق، ممد یوسف اور حنیف محمد جیسا عظیم بلے باز نہیں، میں اپنا ان سے موازنہ نہیں کرتا۔

’ان کے مقابلے میں، میں جس عہد میں کھیل رہا ہوں وہ نسبتاً آسان ہے، میں چاہتا ہوں مجھے ایک ٹیم میں کی حیثیت سے یاد رکھا جائے جو اپنے ملک کی جیت میں وقار میں اضافے کے لیے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘۔

اس موقع پر یونس آسٹریلیا کے خلاف وائٹ واش کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

’یقیناً جب رنز بنائیں اور کھیل میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو آپ اپنی ٹیم کو جیتتے دیکھنا چاہتے ہیں لہٰذا میری بھی خواہش ہے کہ ہم وائٹ واش کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ ہمارے لیے آسان نہیں، ٹیم میں اچھے اسپنرز کے باوجود ہمیں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ آسٹریلیا اس سے قبل بھی اس طرح کے حالات سے گزر چکا ہے اور یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں‘۔

یونس نے کہا کہ آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچز کی سیریز سے باہر کیے جانے کے بعد بہت مایوسی ہوئی تھی اور ایسی صورتحال سے نمٹنا کتنا مشکل تھا۔

’میں بتا نہیں سکتا کہ وہ ہفتہ میں نے کیسے کاٹا کیونکہ میرے اہلخانہ اور دوست بھی بہت تناؤ میں تھے اور وہ سب یہی سوچ رہے تھے کہ اب میں کروں گا‘۔

یونس نے کہا کہ وہ سب اسی خوف کا شکار تھے کہ کہیں میں ریٹائرمنٹ نہ لے لوں لیکن یہ ہفتہ میری خاصی حد تک حوصلہ افزائی کا سبب بنا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025