• KHI: Clear 21.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C
  • KHI: Clear 21.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C

جلسوں کی سیاست سے بڑھ کر

شائع November 12, 2014

یہ سیاسی جلسوں کا موسم ہے۔ اس وقت جلسوں کے منتظمین کی تعریفوں میں بھی زمین اور آسمان ایک کیے جارہے ہیں، جبکہ میڈیا کے پرجوش نمائندے بھی تقریباً ہر جلسے کو ہی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، بے مثال، تاریخی، اور بہت کچھ قرار دے کر ان کی کامیابی کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔

ہر جلسے کو ہی اس پارٹی کے حق میں، اور دیگر پارٹیوں کے خلاف عوامی فیصلہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ تبدیلی آگئی ہے، تبدیلی آگئی ہے کی گردان ہے، جبکہ ایسا لگتا ہے کہ انقلاب بس گلی کے نکڑ پر ہی ہے۔ ایسا ملک جہاں لوگ اپنی بدحال زندگیوں میں تبدیلی کی خواہش رکھتے ہوں، وہاں پر خواب دکھانا کتنا آسان ہے۔

ماضی کے برعکس اب جلسے اپنے بیک گراؤنڈ میوزک اور کارکنوں کے رقص کی بدولت کافی تفریح طبع معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت نے ایسے سیاسی جلسوں کا رنگ روپ ہی تبدیل کردیا ہے۔ ان جلسوں کی لائیو کوریج بھی تبدیل ہوتے سیاسی کلچر کی جانب اشارہ ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان جلسوں سے آگے بڑھ کر کیا ہے؟

اب جبکہ اسلام آباد میں دھرنا اپنے تیسرے مہینے میں داخل ہوچکا ہے، تو توجہ اب دوسرے شہروں کی جانب بڑھتی جارہی ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری دونوں ہی نے پنجاب کو مقابلے کا میدان بنا دیا ہے، وہی پنجاب جو شریف برادران کی طاقت کا مرکز ہے۔ ان جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت ضرور عوام کے موجودہ حکمرانوں سے غیر مطمئن ہونے، اور ملک کے سب سے طاقتور صوبے میں تبدیل ہوتے سیاسی منظرنامے کی جانب اشارہ ہے۔

پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ شریف برادران کی طاقت کے مرکز میں ان کو اتنے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ تبدیلی کا نعرہ بھلے ہی اتنا گہرا نہیں، پر اس نے دو گروپوں، یعنی نوجوانوں اور پڑھی لکھی شہری مڈل کلاس کو سحر میں منبتلا کردیا ہے۔ اب یہ شہری غریبوں کی حمایت بھی حاصل کرتے جارہے ہیں۔ اب یہ کرپٹ، اور خاندانی سیاست کے خلاف ایک وسیع احتجاجی تحریک بن چکی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو پی پی پی کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے، جو کہ پنجاب میں اپنی تاریخی شکست کے بعد سنبھلنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔

ووٹوں کی تصدیق سے شروع ہونے والا معاملہ اب مکمل طور پر مختلف موڑ لے کر وزیراعظم کے استعفے تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن ایسا کوئی امکان موجود نہ ہونے پر اس نے اب ایک بھرپور انتخابی مہم کا روپ دھار لیا ہے۔

عمران خان کا عوامیت پسند موقف حکومت کی نااہلی، اور کرپشن سے پاک ایک نئے پاکستان کے گرد گھومتا ہے جہاں سب کو انصاف میسر ہوگا۔ اس کے برعکس ڈاکٹر طاہرالقادری نے انقلاب کا ایک مکمل منصوبہ پیش کردیا ہے۔ پرانے نظام کے مکمل خاتمے کے اپنے پچھلے موقف سے ہٹ کر اب وہ الیکشن میں حصہ لے کر سسٹم کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

یہ تمام وعدے ملک کی موجودہ حالتِ زار سے بیزار اور تنگ لوگوں کے لیے پرکشش ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے حقیقت سے دور وعدے لوگوں میں ایسی امیدیں جنم دیتے ہیں، جن کا پورا ہونا ممکن نہیں۔ حکومت کی پالیسیوں، اور شریف خاندان کی طاقت پر مضبوط گرفت پر ہونے والی زیادہ تر تنقید جائز ہے، لیکن چیلنج کرنے والوں کی جانب سے اس طرح کے پیچیدہ مسائل کے لیے پیش کیے جانے والے حل بہت ہی سادہ ہیں۔

عوامیت پسند نعرے عوامی حمایت حاصل کرنے کا ایک بہت اچھا ذریعہ تو ہیں، لیکن یہ چیلنجز کا طویل مدتی حل نہیں ہوتے۔ بجلی کے بڑے بڑے بل جلانا، اور لوگوں کو ٹیکس نہ دینے پر ابھارنا آسان ہے، لیکن اقتدار مل جانے کے بعد سسٹم کو درست کرنا اتنا ہی مشکل۔

طاہرالقادری ملک کے تمام شہریوں کو مفت رہائش، صحت کی سہولیات، اور بجلی و گیس پر 50 فیصد سبسڈی دینے کا وعدہ کیے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں یعنی برازیل، روس، ہندوستان، چین، اور جنوبی افریقہ کے جیسا بنا دیں گے۔ یہ سب سننے میں بہت اچھا لگتا ہے، لیکن ہوگا کیسے؟ گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ یا مصطفیٰ کھر کے ساتھ؟ ان جیسے دوسرے سیاستدانوں کی طاہرالقادری کی ٹیم میں شمولیت ان کے وعدہ کردہ انقلاب پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔

خود کو کھیل سے دور ہوتا دیکھ کر پی پی پی نے بھی کراچی میں کئی سالوں بعد ایک بڑا جلسہ کیا۔ پارٹی اب یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ اس نے اب بھی عوام میں اپنی کشش برقرار رکھی ہوئی ہے، اور وہ دوسری اپوزیشن جماعتوں یعنی تحریکِ انصاف وغیرہ کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ لیکن یہ جلسہ سیاسی جماعت کے جلسے کے بجائے حکومت کا اسپانسر کردہ شو زیادہ لگ رہا تھا۔ دیہاتوں سے لوگوں کو بسوں میں بھر بھر کر لایا گیا، جبکہ مقامی لوگ بہت کم تعداد میں موجود تھے۔

پی پی پی کے سابق لیڈروں کی قربانیوں کے علاوہ بلاول بھٹو کے پاس کہنے کو زیادہ کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے تقریباً سبھی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن اپنی جماعت کی سندھ میں انتہائی خراب کارکردگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا، جسے اب سب سے خراب گورننس والا صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔

عمران خان اور پی پی پی کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ توجہ ان صوبوں میں گورننس کے مسئلے سے ہٹا دیں، جہاں وہ اقتدار میں ہیں، اور اسے دوسرے مسائل کی جانب موڑ دیں۔ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ، کہ خیبر پختونخواہ میں تبدیلی آچکی ہے، حقیقت سے کافی پرے ہے۔

کے پی اسمبلی کا اجلاس چار مہینے بعد ہوا، کیونکہ اسمبلی کے ممبران سے لے کر خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ تک، سب ہی اسلام آباد کے دھرنے میں مصروف تھے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ تمام جماعتیں پہلے اپنے اپنے صوبوں میں گڈ گورننس کی مثال قائم کرکے دکھائیں؟

جلسے اور مظاہرے بھلے ہی جمہوری سیاست کا اہم حصہ ہیں، لیکن انہیں ہی سب کچھ سمجھ لینا ٹھیک نہیں۔ طاہرالقادری کا تو جمہوری سیاست میں کچھ خاص حصہ نہیں، اس لیے ان کے پاس کھونے کو بھی کچھ خاص نہیں، لیکن خطرہ پی ٹی آئی کے لیے ہے، جو اس سب کے ذریعے خود کے لیے نقصان پیدا کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کتنا عرصہ لوگوں کو متحرک رکھ سکے گی؟ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جلسے اور مظاہرے حکومت کو استعفیٰ دینے تازہ انتخابات کرانے پر مجبور کردیں۔

لیکن رکیے۔ شاید اتنا انتظار بھی نہ کرنا پڑے، کیونکہ نواز شریف خود کا نقصان کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کام کے لیے ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ پہلے بھی ایسا کیا ہے، اور اس بات کا کوئی اشارہ موجود نہیں کہ ان میں تبدیلی آئی ہے۔ پارلیمنٹ کی حمایت کے باوجود ان کی حکومت مفلوج ہوتی جارہی ہے۔ خیالی جنت میں رہتے ہوئے وہ اصلاحات لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کشتی کے ڈوبنے کے لیے اب صرف نواز شریف کے ایک غیر دانشمند قدم کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری مصنف ہیں، اور صحافت سے وابستہ ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025