• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
شائع January 9, 2015

فاروق سومرو

کیرتھر کے خطے میں رات کو آسمان اتنا شفاف ہوتا ہے کہ آپ اپنی ننگی آنکھوں سے کہکشاﺅں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کا زمینی منظرنامہ اتنا وسیع ہے کہ یہ انسان کی کھینچی گئی سرحدوں سے بہت دور تک پھیلا ہوا ہے۔

اس خطے کی تاریخ اتنی بھرپور ہے کہ ہر ایک وقت کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے، یہاں متعدد چوٹیوں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ بلوچستان اور سندھ کے درمیان ایک قدرتی سرحد بناتا ہے جن میں گورکھ ہل (5700)، کٹے جی قبر (6877) اور بندو جی قبر (7112) نمایاں ہیں۔

ڈیڑھ سو میل تک پھیلا علاقہ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے جبکہ یہاں کی ندیاں، چشمے، درے ، تالاب اور تاریخی مقامات اسے مختلف النوع افراد کے لیے ایک مثالی تفریح گاہ بنادیتے ہیں۔

بدقسمتی سے غیریقینی سیکیورٹی صورتحال نے اس زمینی حقیقت کو چھپا لیا ہے کہ یہاں کے مقامی رہائشی سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بہت زیادہ بے تاب ہیں اور اپنے علاقے کا چہرہ بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

میں گزشتہ برس گورکھ ہل گیا تھا اور اس وقت سے ہی کیرتھر کے خطے میں واپس جانا چاہتا تھا ۔ ایک خاندانی دوست نے بدرو جبل میں ایک بیٹھک کی میزبانی کی اور اس کے بارے میں سنتے ہی میں وہاں جانے کے لیے تیار ہوگیا۔

بدرو جبل کیرتھر کا وہ علاقہ ہے جو زیادہ محفوظ اور دیگر حصوں کے مقابلے میں وہاں تک رسائی زیادہ آسان ہے۔ یہ کراچی سے صرف 320 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور انڈس ہائی وے پر ایک سڑک سے جڑا ہوا ہے۔

یہاں تک کا سفر اس وقت تک غیراہم رہا جب تک ہم تین ہزار فٹ کی بلندی پر نہیں پہنچ گئے جہاں ہم نے نیچے پھیلی وادی کا نظارہ کیا۔ ایک تیل دریافت کرنے والی کمپنی نے بدرو کی سطح پر جگہ جگہ کنویں کھود رکھے ہیں اور ہم پہاڑی کے متعدد حصوں کو جوڑنے والی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو دیکھ سکتے ہیں۔

ہم نے ایک چھوٹا گیسٹ ہاﺅس تلاش کیا جسے حکومت نے طویل عرصے پہلے تعمیر کیا تھا اور اب وہ اجاڑ حالت میں نظر آتا ہے۔ ہم نے وہاں اپنا سفر روکا اور اطمینان سے پہاڑی کے کنارے پر چہل قدمی کرنے لگے۔ ہم نے نیچے تنگ گھاٹی میں ایک مٹی زدہ سڑک کو دیکھا۔

وہاں ہماری ملاقات ایک مقامی چرواہے سے ہوئی جس کی برادری اس گھاٹی میں مقیم ہے ۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اائل کمپنی کی سرمایہ کاری کے بعد ان سے علاقے کی ترقی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

موسم سرد ہونے لگا تو ہم واپس گیسٹ ہاﺅس پہنچے جہاں ہمارے میزبانوں نے الاﺅ بھڑکا کر غیرفعال ہٹ کو ایک روایتی اوطاق میں تبدیل کردیا تھا۔

یہاں نوابشاہ سے سوگھار افراد کو مدعو کیا گیا تھا جنھون نے روایتی انداز میں بیٹھک کا آغاز شاہ کی شاعری سے کیا اور پھر مقبول لوک گیت بھی گا کر سنائے۔ بدرو جبل اپنے شفاف آسمان کی بدولت کراچی امیچور آسٹرونومر کلب کے لیے ستاروں کے نظارے کا ایک پسندیدہ مقام بھی ہے۔

کسی نے مجھے بتایا کہ شفاف ہوا کے باعث حکومت نے ایک بار ایک ٹی بی ہسپتال کے تعمیر کے منصوبے پر بھی غور کیا تاہم یہ پراجیکٹ آدھے راستے میں ہی ترک کردیا گیا۔

اگلی صبح ہم نے پہاڑی سے نیچے اترے جس دوران میں جادوئی منچھر جھیل کا ایک کنارہ طویل فاصلے سے بھی دیکھ سکتا تھا اور دیکھنے میں سمندر کی طرح لگ رہی تھی۔

میری آوارہ گردی کی تسکین نہیں ہوئی تھی اور میں نے چند دوستوں کو گورکھ ہل سے قبل آنے والی ایک چھوٹی بستی واہی پنڈی کی جانب سفر کے لیے قائل کرلیا تھا، یہ علاقہ ندیوں، تالابوں اور تاریخی چٹانی آرٹ کے مقام کا گھر بھی مانا جاتا ہے۔

اتفاقی چیزوں کو دریافت کرنا میرا سب سے بڑا ساتھی ہے اور میں اس پر ہی دوبارہ انحصار کرنا چاہتا تھا تاہم ہمارے میزبان نے اصرار کیا کہ ہم اپنے ساتھ ایک گائیڈ کو لے جائیں لہذا ہم کسی کو ڈھونڈنے کے لیے متبادل راستے سے منچھر جھیل کی جانب بڑھے۔

جھیل کا پانی سرما کے ٹھٹھرے سورج کی زرد شعاعوں میں جگمگا رہا تھا اور ہم نے وہاں متعدد چھوٹی بستیوں کو راستے میں دیکھا جو بحیرہ روم کے ساحلوں کی یاد دلارہی تھی۔ ہم نے اپنا گائیڈ ڈھونڈا اور وہ ہماری گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ راستے کی نشاندہی کرنے لگا۔

ہمارا گائیڈ جمن شاہ ایک مصروف کاروباری شخصیت تھا جو سفر کے دوران ایک فروخت کے معاہدے میں الجھا رہا۔ وہ اپنی کشتی کا آدھا حصہ بیچنے کی کوشش کررہا تھا اور مجھے یہ سن کر عجیب لگا کہ آخر کشتی کا آدھا حصہ کیسے فروخت کیا جاسکتا ہے۔

میں نے پوچھا کہ اگر کشتی کے دونوں مالکان نے مختلف سمتوں میں جانے کا فیصلہ کرلیا تو پھر؟ جمن شاہ نے مجھے نظر بھر کر دیکھا۔

پھر اس نے وضاحت کی " ہم نے کشتی کی ملکیت مختلف دنوں میں تقسیم کردی ہے "۔ وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا اور پھر ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا " وہاں دیکھیں وہ ایک اونٹ ہے"۔

جب میں اپنی ساکھ سے محروم ہوگیا تو وہ پھر بنیادی چیزوں پر بولنا شروع ہوگیا۔ اس علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ نایاب ہے اور لوگ سفر کے لیے موٹر سائیکلوں، اونٹوں اور جیپوں پر ایک دوسرے کو جگہ دیتے ہیں۔

کچھ دور جاکر سڑک غائب ہوگئی اور ایک گرد آلود راستہ سامنے آگیا جہاں ہم نے ایک خاندان کو ایک گدھا گاڑی پر پانی سے بھری جیری کینز لے جاتے دیکھا۔ جمن نے ہمیں بتایا کہ یہاں بجلی موجود نہیں اور لوگوں کو دور دراز سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ میں یہ سن کر حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ آخر یہاں کی زندگی کیسی ہوگی۔

کچھ لمحات بعد ہم نے ایک پہاڑی کے کنارے پر ایک قبرستان کو دیکھا جو اپنے شاہی انداز سے افسانوی لگ رہا تھا اور پوری عظمت سے یہاں کھڑا تھا۔

ہمارے گائیڈ کو اس قبرستان کے ماخذ یا بنیاد کا کوئی اندازہ نہیں تھا مگر پھر ایک دوست نے مشورہ دیا اور ہم قبرستان کی جانب چلنے لگے۔

وہاں پر سجی ہوئی قبروں کے سوا کسی قسم کا اشارہ اور کتبہ نہیں تھا۔ مجھے یہ احساس ہورہا تھا کہ یہ وہ قبرستان ہوسکتا ہے جو " بوٹا کوبا" (Butta Quba) کے نام سے معروف ہے جہاں مغل اور کلہوڑا جیسے شاہی خاندانوں کے اراکین محو خواب ہیں۔

اس یادگار کی حالت اب بھی شاندار ہے اور قبریں رنگا رنگ سنگ تراشی اور ڈیزائن سے سجی ہوئی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر وہاں دفن افراد کے نام یا خطاب کا ذکر تک نہیں تھا۔ پہاڑی کے کنارے پر ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی واقع ہے۔

میں نے ملحقہ پہاڑی پر اس سے بھی منفرد اسٹرکچر کو دیکھا اور ہم اس جانب بڑھے اور مجھے اچانک ہی معلوم ہوا کہ ہم نے جیک پاٹ حاصل کرلیا ہے۔

یہاں موجود چھوٹا شامیانہ اور ایک قبر ہوسکتا ہے کہ بچنے والی واحد یادگار ہو جو بظاہر ایک اور قبرستان جیسی نظر آتی ہے مگر یہ مانا جاتا ہے کہ یہ اس علاقے کا آتش پرستوں سے دلچسپ تعلق کا ایک مقام ہے۔

یہان موجود قبریں کا تعلق آتش پرستوں کی صدیوں پہلے فراموش کر دی جانے والی روایت سے جوڑا جاتا ہے ۔ یہ قبریں زرد پتھروں کے استعمال سے تعمیر کی گئیں اور یہاں کی نقش نگاری کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے سورج کی شعاعیں چھت پر پھیلی ہوئی ہیں۔ انہیں عام طور پر رومن قبروں کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کا تعلق سکندر کی فوج سے ہے جس نے تین سو قبل مسیح کے لگ بھگ سندھ پر حملہ کیا تھا۔ ہم وہاں سکوت میں کافی دیر تک کھڑے رہے۔

پھر ہم نے واہی پنڈی کی جانب اپنا سفر دوبارہ شروع کیا اور اس وقت تک ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا کیونکہ گائیڈ اور میں اس علاقے کے کچھ مقبول مقامات کے تلفظ میں الجھے ہوئے تھے۔

پھر اس نے کہا " چلو آﺅ بودھو آبشار دیکھنے چلتے ہیں" ، میں نے اس مقام کا آسان تلفظ سمجھ لیا اور ہم فوری طور پر وہاں جانے کے لیے تیار ہوگئے۔

بودھو واہی پنڈی کے قریب واقع متعدد آبشاروں میں سے ایک ہے جہاں موسم بہار میں آنے والے پانی کو مقامی افراد مرچیں، ٹماٹر اور دیگر فصلوں کی کاشت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

باقی ماندہ پانی یہاں کی مرکزی ندیوں میں سے ایک میں چلا جاتا ہے جبکہ مقامی افراد مٹی سے بنے گھروں میں رہتے ہیں جن کی چھتیں بھوسے سے بنی ہوتی ہیں۔

جمن مقامی رہائشیوں کو جانتا تھا اور انہوں نے فوری طور پر اپنی اوطاق اور دل ہمارے لیے کھول دیئے۔ یہ پاکستان کے ان افراد میں شامل ہیں جو ایسے مشکل خطے میں رہتے ہیں جہاں بہت کم زمین ہی کاشت کے قابل ہے۔

سیزن میں بہت زیادہ بارش نے مستحکم زندگی کو مزید مشکل بنادیا ہے مگر وہ ہم سے پورے جذبے کے ساتھ ملے اور بچے کیمرا کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے جبکہ بزرگ چائے کے لیے جمع ہوگئے۔

ہم وہاں بیٹھ گئے اور چائے پیتے ہوئے بے فکر سے گپ شپ کرتے رہے۔ وہ لوگ بروہی زبان بولتے تھے جس میں سندھی جملے میں شامل ہوجاتے تھے۔ میں وہاں موجود چارپائی پر گر کر سو جانا چاہتا تھا مگر ہم نے اپنے میزبان سے وعدہ کررکھا تھا کہ سورج غروب ہونے تک واپس نوابشاہ پہنچیں گے۔

لہذا ہم واہی پنڈی کی نامکمل سیر کے احساس کے ساتھ واپس جیپ میں جاکر بیٹھ گئے۔

تبصرے (22) بند ہیں

anees Jan 09, 2015 05:40pm
so so beautiful and spell casting . i will inshallah visit this place as soon as possible
Dr Abdul Qadeer Memon Jan 09, 2015 05:53pm
ماشاء الله زبردست ، خدمت ڪرڻ سان گڏ اسان کي گھر ويٺي ڄاڻ سان گڏ علائقي جو مشاهدو پڻ ڪرائي ويا مهرباني
faridiaamir ahmed Jan 09, 2015 06:53pm
shandar jaga hay zaber dast koi pakistan ki aisi khobsorti ko nahi dikhata very nice keep it up thanks
وسیم بن اشرف Jan 09, 2015 06:56pm
بہت زبردست اور خوبصورت فیچر ہے،لکھاری کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے
Hanif Jan 09, 2015 07:53pm
That is really something very nice. Please continue to explore PAKISTAN
وسیم بن اشرف ملتان Jan 09, 2015 08:11pm
بہت ھی زبردست فیچر ہے،معلوماتی بھی ہے،لکھاری کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے،ایسے مضامین آئندہ بھی شائع کئے جائیں ‘بودھو واہی پنڈی کے قریب واقع متعدد آبشاروں میں سے ایک ہے جہاں موسم بہار میں آنے والے پانی کو مقامی افراد مرچیں، ٹماٹر اور دیگر فصلوں کی کاشت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘ یہ بہت انفورمیٹو ہے
محمد وقاص Jan 09, 2015 09:19pm
فاروق مذکورہ مقامات اور اس سے قبل اروڑ کے دورے کا آپ کا مضمون بہت خوب تھا۔ میری ایک درخواست ہے ۔ آپ سندھ کے ان خوبصورت مقامات کے دورے کیلئے انتظامات کریں تاکہ عوام بھی ان مقامات کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوسکیں۔ دوسری جانب سندھ کے سیاحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کا ذریعہ معاش بھی بہتر ہوسکے۔
سید فائق حسین شاھ رضوی، مھرا جبل جامشورو Jan 10, 2015 02:17am
بہت ہی خوب صورت ہے وادی مھران کسی نے بھی اسکی خوبصورتی کو کھوجا نہیں، جس نے بھی مھران کی خوبصورتی دیکھی تو اس میں کھو ساگیا، اللہ تاقیامت وادی مھران کی خوبصورتی قائم رکھے اور لوگوں میں یہ جذبا و شعور پیدا کرے کے وادی مھران کو ترقی دیں تاکہ دنیا کے لوگ اس سے واقف ہوں۔ اللہ نے وادی مھران کو جنت بنایا ہے اور ہم اس کے ہوتے ہوۓ اس کو دیکھ نہیں سکتے یہ صرف ہماری غفلت کاہلی،سستی اور جاہلت ہے کے ہم اپنی جنت کو نمایاں نہیں کر سکتے کے ہم اپنے ساتھ دنیا کو یہ جنت دیکھ سکیں، کاش ہمارے سیاستدان،عوام،دانشور اور وادی مھران کے ہر ایک فرد کو یہ احساس ہو کہ ہم کسطرح اللہ کے عطا کر دا نظاروں سے محروم ہیں، اللہ وادی مھران کے لوگوں کو عقل و شعور دے کے ہم اپنی جنت دنیا کو دیکھانے قابل ہو جائیں امین
fatima Jan 10, 2015 01:21pm
MASHALLAH bht achi jaga hai ye
Naveed Alam Jan 10, 2015 03:24pm
Farooq Bhai, bhot zabardast tourism kia hai app nay, app ki bato se lag raha hai kay ye jagha waqi shandhar or adventurist hai. or Bhai apne jo pic capture ki hain woh bhi bhtreen resolution ki hain. Excellent.
Mursalan Jan 10, 2015 04:04pm
please take me with you next time you go on such adventure ...
Anwer Pasha Jan 11, 2015 05:19am
Thank you for this , thanls 'Dawn"
Mirza Sheharyar Baig Jan 11, 2015 01:12pm
Zabrdast Great Effort..... I am so happy to see that people are here to show the VERY POSITIVE and REAL Face of Pakistan, the beautiful Pakistan. Stay blessed , Keep it up. Amazing Pictures, I wish to go there "
Muhammad Waqas Ali Jan 11, 2015 06:25pm
بہت ھی زبردست فیچر ہے،معلوماتی بھی ہے،لکھاری کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے،ایسے مضامین آئندہ بھی شائع کئے جائیں
Mohsin Ali Jan 11, 2015 09:15pm
Bhai bohat achi sair ki apnay mujay to bohat achi lagi
محمد وفر ولد محمد حےدر Jan 11, 2015 11:50pm
میری راتے انے کو کراچی سے کیر تھر کے الا قے میں باقایدo ٹورسٹ گروپ سروس شروe کی جانے تا کو کراچی کے لوگ بھی گورکھ ول اور کیر تھر کے الا قے میں جآ انے.
asif khan Jan 12, 2015 12:12pm
بہت ہی خوب صورت ہے وادی مھران کسی نے بھی اسکی خوبصورتی کو کھوجا نہیں، جس نے بھی مھران کی خوبصورتی دیکھی تو اس میں کھو ساگیا، اللہ تاقیامت وادی مھران کی خوبصورتی قائم رکھے اور لوگوں میں یہ جذبا و شعور پیدا کرے کے وادی مھران کو ترقی دیں تاکہ دنیا کے لوگ اس سے واقف ہوں۔ اللہ نے وادی مھران کو جنت بنایا ہے اور ہم اس کے ہوتے ہوۓ اس کو دیکھ نہیں سکتے یہ صرف ہماری غفلت کاہلی،سستی اور جاہلت ہے کے ہم اپنی جنت کو نمایاں نہیں کر سکتے کے ہم اپنے ساتھ دنیا کو یہ جنت دیکھ سکیں، کاش ہمارے سیاستدان،عوام،دانشور اور وادی مھران کے ہر ایک فرد کو یہ احساس ہو کہ ہم کسطرح اللہ کے عطا کر دا نظاروں سے محروم ہیں، اللہ وادی مھران کے لوگوں کو عقل و شعور دے کے ہم اپنی جنت دنیا کو دیکھانے قابل ہو جائیں امین
asif khan Jan 12, 2015 12:13pm
بہت زبردست اور خوبصورت فیچر ہے،لکھاری کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے
Muhammad Waheed Aftab Jan 12, 2015 09:29pm
i am really impressed from pictures taken by the photographer and it was hard to believe that these precious places / environment are available in Pakistan. it is my earnest request to Admin that please sent these pictures to Ministry of Culture Govt. of Sindh and Govt. of Pakistan so that our local and people and International Tourists can enjoy heaven available in our country and maybe it would help the local people for earning money. i hope that you will give proper response / attention to my request. Pakistan Zindabad
Amjad Jan 13, 2015 03:15am
Beautiful description . It can attract lot of tourism. Hidden treasure. Thanks for sharing.
RAO GULZAR AHMAD Jan 13, 2015 03:24pm
بہت اعلیٰ بہت زبردست کاوش، لکھاری مسافر کو سلام پیش کرتا ہوں، زبردست منظر نامہ اور زبردست تصویر کشی، منظر نامہ کو پڑھتے ہوئے اور تصاویر کو دیکھتے ہوئے میں خود کو جمن شاہ کی قیادت میں فاروق سومرو اینڈ گروپ کا حصہ محسوس کر رہا تھا، اور لکھاری کا کمال یہی ہے، اسی خوبی کی بنا پر اور اس زبردست کاوش پر میں لکھاری کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، اور کامیابیوں کے لیئے دعا گو ہوں
Abdul Rauf Noor Jan 14, 2015 08:26pm
bhai bohat kubsurat juga ha