'پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کو بچالیا'

07 مارچ 2015
پی ٹی آئی سربراہ عمران خان، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق — آئی این پی فوٹو
پی ٹی آئی سربراہ عمران خان، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق — آئی این پی فوٹو

ہر ایک اپنے حریفوں کو سینیٹ نشستوں کے مقابلے میں مات دینا چاہتا ہو اور ان کی بڑی جیت کا مقابلہ نہ کرسکتا تو تو اسے کامیابی کے لیے کم از کم تین چیزوں میں تو ماسٹر ہونا ہی چاہئے ، حساب، حکمت عملی اور سیاسی معاملہ فہمی۔

ہر ایک کے محتاط رہنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں کوئی دوست اور کوئی دشمن نہیں ہوتا اور یہاں کوئی مستقل تعلق بھی نہیں ہوتا، سیاسی تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور سیاست بے رحم ہوتی ہے۔

اس ان اسباق کا نتیجہ ہے جو جمعرات کو خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں سامنے آیا، سیاسی اتحادوں کے اعصاب شکن اتار چڑھاﺅ جھگڑالو، باوسائل امیدواروں اور وفاداریاں بدلنے کا امکان سب ایک سپسنس تھرلر کے لیے کافی مواد تھا۔

مگر اس بڑے ڈرامے کا اختتام جس کا بیشتر افراد سانس روک کر انتظار کررہے تھے، بس ایسے ہی ہلکے انداز میں ہوگیا۔

وہاں کوئی بڑے پیمانے پر بے وفائی نظر نہیں آئی اور نہ ہی ایسا نظر آیا کہ متعدد افراد اپنی روح شیطان کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں حالانکہ اگر کوئی اعدادوشمار پر یقین کرنا چاہئے تو یہاں وہاں حکمران تحریک انصاف میں ہی 26 ایسے افراد کی بات ہورہی تھی۔

اس معاملے پر آپ کو وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو تھپکی دینی چاہئے جن کی آخری منٹ میں سیاسی سرگرمیوں نے ان کی پارٹی اور ان کے برہم چیئرمین عمران خان کے دن کو بچالیا۔

اگرچہ یہ آسان نہیں تھا اور بمشکل چند گھنٹے پہلے ہی نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان کی آفتاب شیرپاﺅ کی قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ ایک سیٹ شئیرنگ فارمولے کے لیے کی جانے والی محنت غارت ہوتی نظر آئی جب ان کی جماعت کے سربراہ نے پشاور میں کسی معاہدے سے انکار کردیا تھا۔

پرویز خٹک خوش نہیں تھے، گھنٹوں تک شہر کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل اور اسپیکر ہاﺅس میں ہونے والی ملاقاتیں ضایع جارہی تھیں اور عمران خان نے ایک پانا کام کے درمیان پھینک دیا تھا۔

وزیراعلیٰ کو کچھ وقت اور کوشش کرنی پڑی تاکہ ان کے چیئرمین نواز لیگ سے سیاسی اتحاد کی مخالفت ترک کردیں اور انہیں ایک فارمولے پر کام کے لیے کچھ جگہ فراہم کرسکیں۔ عمران خان اس شرط پر نرم پڑے اگر پرویز خٹک اس معاہدے کو عوام کے سامنے نہ لائیں، عملیت پسندی غالب آگئی اور دونوں جماعتوں کے فائدے کے انتظامات پر کام شروع ہوگیا۔

زیرک پرویز خٹک نے ایک ' چین' تشکیل دی جس کے تحت اراکین پر اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے بیلٹ پیپر شو کرنا لازمی ہوگیا، یہ ' چین' ماضی میں بھی کام کرچکی ہے اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس بار بھی کام نہ کرتی۔

پاکستان پیپلزپارٹی جس پر اراکین کے حصول کی مہم کے آراکسٹرا کا شہ تھا، باآواز بلند تصادم کرکے پولنگ کی معطلی پر مجبور کردیا مگر جب ووٹنگ کا دوبارہ آغاز ہوا تو پرویز خٹک صبح کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ پراعتماد نظر آرہے تھے۔

اس وقت جب ووٹنگ کا اختتام ہوا تو یہ واضح نظر آنے لگا تھا کہ پرویز خٹک کی کوششیں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔

وزیراعلیٰ کے تعاوننے مسلم لیگ نواز کے لیے جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی کی جنرل نشست پر بطور سینیٹر منتخب ہونے کو یقینی تو بنایا ہی اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر جاوید عباسی کی کامیابی کے لیے کافی ووٹوں کا حصول ممکن بنا دیا۔

یہ زبردست تھا، مسلم لیگ ن جو لگ رہا تھا کہ بمشکل ہی صلاح الدین ترمذی کی نشست حاصل کرسکے گی، اسے جاوید عباسی کی کامیابی بونس میں مل گئی، واضح طور پر پرویز خٹک کی کاریگری نے نواز لیگ کو دو نشستیں جیتنے میں مدد فراہم کی اور انہوں نے اس امر کو بھی یقینی بنالیا کہ ان کے اراکین اکھٹے رہے اور یہاں وہاں نہ پھسل جائیں۔

اس چیز نے ان افراد کے لیے دباﺅ بڑھا دیا کہ وہ کے پی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی مضبوطی سے زیادہ ووٹ حاصل کریں، پی پی پی کے خانزادہ خان کی پارٹی کے پاس صرف پانچ اراکین تھے اور پہلی گنتی میں انہیں نو ووٹ ملیں تو باقی کے ووٹ کہاں سے آئے؟

اس کے جواب کے لیے آپ کو ارشمیدس ہونے کی ضرورت نہیں، اگر آپ کیو ڈبلیو پی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ اور نواز لیگ کی پارٹی پوزیشن کو دیکھیں اور ان کے امیدواروں کو ملنے والے پہلی گنتی کے ووٹوں سے موازنہ کریں۔

کیو ڈبلیو پی اور نواز لیگ دو، دو اراکین سے محروم ہوئے جبکہ جے یو آئی ف کو ایک رکن کا نقصان اٹھانا پڑا اور اس طرح چار ووٹ پی پی پی کے صوبائی صدر کی جانب چلے گئے جبکہ ایک آزاد امیدوار وقار احمد خان کے پاس، جو کہ ممکنہ طور پر مسلم لیگ ن کے وجیہہ الزمان کا تھا۔

مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے باغی رکن جو کھلے عام اپنی پارٹی قیادت سے بغاوت کرتے ہوئے وقار احمد خان کی حمایت کا اعلان کرچکے تھے تاکہ بدلے میں اپنی والدہ کے لیے حمایت حاصل کرسکیں، جو انتخابات میں ناکام رہیں۔

وقار احمد خان نے نہ صرف اپنے لیے ووٹوں کے حصول کے لیے کوشش کی بلکہ انہیں اپنے بھائی امر احمد خان کے لیے ووٹوں کے حصول کے لیے کافی کام کرنا پڑا جو کہ کیو ڈبلیو پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔

امر کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جس کی وجہ کیو ڈبلیو پی کے دو اراکین کی غداری تھی۔

شیرپاﺅ کی پارٹی ایک سیٹ بھی جیت نہ سکی حالانکہ اس کے پاس متعدد اراکین تھے، اس کے مقابلے میں اے این پی جس کے صرف پانچ اراکین تھے، اپنی ایک سابق خاتون وزیر کو خواتین کی ایک نشست پر پی پی پی کے تعاون سے منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئی۔

خوش قسمتی اور دولت لگتا ہے کہ ڈیرہ اسمعیل خان کے گلزار احمد خان کے بیٹوں کے کام نہیں آیا ، جن کی امارات کی بظاہر کوئی حد نہیں اور ان کا سیاسی مشغلہ بس سینیٹ انتخابات لڑنا اور کامیاب ہونا ہے۔

ماضی کے مقابلے میں اس بار سیاسی جماعتیں بحث کرکے ایک فارمولے پر متفق ہوگئے تھے اور انہوں نے لالچی اور آرزو مندی کی بجائے عملیت پسندی کا اظہار کیا اور سب کو کچھ نہ کچھ ملا ہے۔

پی پی پی دو نشستیں جانتی تھیں، اسے ایک کی پیشکش ہوئی اور اسے ایک مل گئی اگرچہ سوالیہ انداز میں ایسا ہوا، جے یو آئی ف جو دو کی بجائے تین نشستوں کا مطالبہ کررہی تھی، اسے ایک نشست کی پیشکش ہوئی اور اسے ایک ہی ملی۔

پراعتماد شیرپاﺅ نے ایک امیدوار کو نامزد کیا تھا اور ایک جنرل نشست پر ہی خوش تھے اور انہیں تمام جانب سے ایک نشست کی پیشکش ہوئی تھی اور تمام جماعتیں متفق بھی ہوگئی تھیں، مگر وہ خالی ہاتھ ہی رہ گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں