پاکستان میں زراعت پسماندہ کیوں؟

13 مارچ 2015
زراعت پر کوئی بھی پالیسی بنانے سے پہلے کاشتکاروں کی رائے لینا بہت ضروری ہے۔  — رائٹرز
زراعت پر کوئی بھی پالیسی بنانے سے پہلے کاشتکاروں کی رائے لینا بہت ضروری ہے۔ — رائٹرز

پاکستان میں زراعت کے ترقی نہ کرنے کے اسباب کا اگر ہم جائزہ لیں تو سینکڑوں وجوہات، ہزاروں دلائل، اور درجنوں ہفتوں کی بحث کے بعد بھی ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔

کس کس مشکل کی بات کریں؟ پانی کی کمی سے لے کر گلیشیر پگھلنے تک، سمندروں اور موسم کے اتار چڑھاؤ سے لے کر سیاسی خلفشار تک، نہ جانے کون کون سے دلائل دیے گئے ہیں لیکن اس ساری بحث میں ایک چیز کے بارے میں بات نہیں کی گئی جو اس سارے معاملے کی اصل جڑ ہے، یعنی کہ وہ لوگ جو زراعت کی ترقی کے لیے مامور تھے، ان کا زراعت کی ترقی میں کیا کردار رہا ہے۔

محکمہ زراعت کے زیادہ تر افسران و ملازمین اتنے ذمہ دار ہیں کہ صبح اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہیں، وہاں پر چائے پیتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں، باقی سب کام کرتے ہیں، لیکن جو کام ان کے کرنے کا ہے وہ نہیں کرتے، جو ان کی ڈیوٹی ہے اس کو سر انجام نہیں دیتے۔ اگر سو میں سے ایک شخص اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا ہے تو بقیہ 99 اس ڈیوٹی کو کیش کروانے میں لگ جاتے ہیں۔

ہماری زراعت کا تعلق 2 ایسے اداروں کی کارکردگی پر ہے جنہوں نے پاکستان کی زراعت کو آج اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے ایک ادارہ نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (NARC) ہے اور دوسرا ادارہ ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جناب آپ نے گذشتہ سالوں میں کیا کام کیا ہے؟ ذرا کاغذی رپورٹوں سے ہٹ کر کوئی حقیقی کام تو دکھائیں؟ لیکن کیونکہ ان اداروں کے ملازمین بیشتر اوقات فارغ رہتے ہیں، اس لیے جب ان سے کوئی یہ سوال کر دے تو یہ اس سوال کرنے والے یا اس درخواست دہندہ کے خلاف درخواستیں لکھنے میں، اس کے خلاف بیان دینے میں، اس کے خلاف کیس کرنے میں، اور اس کو تنگ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک واقعہ پیش ہے کہ سرگودھا کی تحصیل بھلوال میں ایک ترقی پسند کاشتکار نے دو ایکڑ زمین پر ایک ٹنل فارم لگایا جو کہ بالکل پکی سڑک پر موجود ہے۔ وہاں سے دن میں ایک یا دو مرتبہ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے ایک 'صاحب' کا گزر ہوتا تھا۔ شاید انہوں نے اس فارم کو دیکھا بھی ہوگا لیکن اس علاقے میں یہ نیا کام تھا، جس کا انہوں نے اتر کر جائزہ لینے کی زحمت نہیں کی حالانکہ یہ ان کی ڈیوٹی تھی کہ جو لوگ یہاں کام کرتے ہیں ان کو مشورہ بھی دیں۔

اس کاشتکار نے اپنے اس فارم سے خوب منافع کمایا لیکن سوچا کہ اگر وہ یہی کام ایک سمجھدار ایگریکلچرسٹ کی راہنمائی میں کرتا، جو کہ حکومت پاکستان کی جانب سے مقرر کیے گئے ہیں، تو اس کا اس سے بھی زیادہ فائدہ ہوتا۔ وہ اس افسر کے دفتر پہنچ گیا اور اس سے پوچھا کہ بھائی اتنا عرصہ ہو گیا ہے، میں نے اتنا اچھا فارم بنایا، پوری تحصیل کے لوگ میرا فارم دیکھنے کے لیے آئے ہیں، ایم این اے، ایم پی اے آ رہے ہیں، آپ کو تو گورنمنٹ نے اس کام کے لیے رکھا ہے، آپ اب تک کیوں تشریف نہیں لائے؟

جواب میں اس نے کہا بھائی دیکھو میں تنخواہ گورنمنٹ سے لیتا ہوں تم سے نہیں لیتا، میں اُن کو جواب دہ ہوں تمہیں نہیں۔ اور اگر تم نے کوئی اچھا فارم بنا لیا ہے تو ہم پر کون سا احسان کیا ہے، حالانکہ یہ وہی ایگریکلچر افسر تھا جو کچھ عرصہ پہلے اس کاشتکار کے ڈیرے پر فارمرز میٹنگ کرواتا تھا اور محکمے کو اپنی رپورٹ بھیجتا تھا۔

کاشتکار نے افسر کے اس رویے کے خلاف ایک درخواست لکھی اور وزیر اعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب، اور سیکریٹری ایگریکلچر کو بھیج دی کہ یہاں ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ متعلقہ افسران توجہ نہیں دیتے۔ اس درخواست کو سات دن نہیں گزرے تھے کہ متعلقہ اہل کار کوئی آٹھ دس اپنے سے بڑے افسران اور گاڑیوں سمیت ان کے فارم پر پہنچ گئے، پہلے تو تھوڑا دھمکانے والے انداز میں بات کی لیکن جب فارم کے لوگوں نے اس دھمکی کے جواب میں دھمکی دی تو افسران نہ صرف خاموش ہوئے بلکہ معذرت کرنے لگے کہ ہماری روزی روٹی کا سوال ہے آپ اپنی درخواست واپس لے لیں ہم آپ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔

لیکن کاشتکار نے درخواست واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں آپ کو بالکل بھی معاف نہیں کروں گا اور درخواست کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آئے گا، آپ کو خبر ہو جائے گی۔ اس کے بعد وہ افسران علاقے کے لوگوں، نمبر داروں، تحصیلداروں، ایم این اے اور ایم پی اے کو ساتھ لانے لگے اور آخر ایک مہینے کی منت سماجت کے بعد انہوں نے کاشتکار پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی درخواست واپس لینے پر مجبور ہو گیا۔ اب اس کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کے لیے اور آئندہ اس کو درخواست دینے سے روکنے کے لیے پچھلے ماہ اس کو تین کھاد کی بوریاں مفت میں دی گئیں ہیں اس کے ساتھ اس کو ٹماٹر کے ہائیبرڈ بیج کے پیکٹ خرید کر دیے گئے ہیں۔

اتنی بڑی مشق صرف ایک شکایت سے بچنے کے لیے کی گئی۔ اگر اتنی مشق زمیندار کی خدمت کرنے کے لیے محکمہ زراعت و توسیع (ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ) کر لے تو کیا برا ہو؟ اس محکمے کا یہ کام ہے کہ جو بھی جدید ریسرچ ہو اس کو فارمر تک پہنچایا جائے۔ یہ محکمہ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ اور فارمر کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے لیکن پچھلے آٹھ سالوں سے عملی طور پر اس شعبے کا کام ٹھپ پڑا ہے، اور جو معلومات کسان تک پہنچنی چاہیے تھیں، اس کو مکمل طور پر ختم کر کے رکھ دیا ہے۔

پچھلے آٹھ سال سے اس محکمے کے جتنے اخراجات ہیں، اور اس دوران جتنے مسائل سامنے آئے ہیں ان کے بارے میں اس محکمے کے سربراہ سے پوچھا جائے کہ آٹھ سال زراعت کا کام پس پشت ڈال کر آپ حکومت کے مختلف انتظامی کام کیوں بلاوجہ سر پر لیے جارہے ہیں؟ ایک پورا شعبہ جس کے پاس سینکڑوں گاڑیاں ہزاروں ملازمین ہیں ان اداروں نے جو فارمر کی مدد کے لیے ہیلپ لائن بنا رکھی ہے اگر اس پر مدد لینے کے لیے فارمر غلطی سے کال کر دیں تو ایک گھنٹے کے لیے یہ لوگ کال کرنے والے کو ہولڈ کروا دیتے ہیں۔ کیا یہ اس لیے ہے کہ دوبارہ کوئی فون کرنے کی زحمت نہ کرے یا اس لیے کہ آپ کے پاس کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے کے لیے ماہرین ہی موجود نہیں ہیں؟

محکمہ زراعت کو کھانے والا پاکستان میں سب سے بڑا ادارہ نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (NARC) ہے جو کہ حکمرانوں کی ناک کے نیچے بیٹھ کے ملک کو لوٹنے میں اور زراعت کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جتنی ان کے ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، جتنے ان کو ریسرچ فنڈ دیے جاتے ہیں، ان کا پچھلے صرف دس سال کا آڈٹ کر لیا جائے کہ دس سال میں آپ نے گورنمنٹ سے عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے جو حاصل کیے، اس کے عوض قوم کو کیا دیا ہے، تو سب کھل کر سامنے آجائے۔

اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک یہ سبزی کا ایک بھی ہائیبرڈ بیج نہیں دے سکے۔ پچھلے چار سالوں سے یہ پرائیوٹ اداروں سے بیج مانگتے ہیں۔ اور ان افسران کی اپنی تنخواہیں لاکھوں روپے میں ہیں۔ ان کی جیپیں، ان کے پیٹرول، اور ادارے کے اپنے تمام اخراجات بے شمار ہیں۔ جتنے فنڈز اس ادارے کو ملتے ہیں، اگر اس میں سے صرف پانچ فیصد بھی یہ ریسرچ پر خرچ کرنا شروع کر دیں، تو شاید ادارے کی شکل و صورت بہتر ہو جائے۔

جب بھی اس ادارے کا سربراہ لگایا جاتا ہے تو یہ سوچ کر لگایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر مضبوط ہو، اس کی تعلیم کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ اس ادارے میں سینکڑوں لوگ غیر قانونی طریقے سے بھرتی کیے گئے، پھر عدالت کے حکم پر سب کو نکالا گیا۔ پھر اسی طرح سے ان کو دوبارہ بھرتی کیا گیا، پھر دوبارہ نکالا گیا، یعنی کئی دفعہ ان کو نکالا جاتا رہا ہے، کئی بار ان کو بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔

آج کل یونیورسٹی ٹیچرز کی تشخیص کی جاتی ہے۔ بچوں کو ایک فارم دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کو پر کریں۔ ٹیچر کے کورس پڑھانے، اس کے اسٹائل اور اس کی ذمہ داری سے متعلق رائے لی جاتی ہے اور ہر بچہ ٹیچر کو نمبر دیتا ہے۔ اگر ایک ٹیچر کی تشخیص ہو سکتی ہے، جو سب سے مقدس شعبہ ہے، تو ڈاکٹر کی یا کسی سائنسدان کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ اسی طرح سے ایک ایگریکلچر سائنسدان یا ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ کا بندہ جو کہ فارمر تک معلومات پہنچانے کا ذمہ دار ہے، پر پہنچاتا ہی نہیں، اس کے بارے میں بھی پوچھا جائے کہ جناب آپ کے ذمے جو کام تھا، وہ کیوں پورا نہیں کیا؟

ان مسائل کے حل میں تو نہ جانے کتنا وقت درکار ہے لیکن جو فوری حل سمجھ آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں بیوروکریٹس کے بجائے ٹیکنو کریٹس کو بٹھایا جائے۔ ہر شعبے کے اوپر ایک گورننگ باڈی ہو، سیکریٹری ایگریکلچر کے بعد ڈی جی ایگریکلچر ہو اور اس کے ساتھ ایک گورننگ باڈی ہو، جس میں کم از کم پندرہ سے بیس کامیاب کاشتکار ہوں، وہ کاشتکار حکومت کی راہنمائی کریں کہ زرعی پالیسی کیسے بنانی ہے۔

اعلیٰ افسران یہ تو کر سکتے ہیں کہ پالیسی کو حتمی دستاویزی شکل دیں اور اس پر عملدرآمد کروائیں، لیکن وہ پالیسی تب تک کامیاب نہیں ہو گی جب تک اس میں ان لوگوں کی رائے شامل نہ ہو جن سے متعلق پالیسی بنائی جارہی ہے۔ تپتی دھوپ اور ہڈیاں جما دینے والی سردی میں کاشت کرنے والا زمیندار ہی بہتر طور پر یہ بتا سکتا ہے کہ ان کی ضرورت کیا ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں اور ان مسائل کا حل کیا ہے۔ ملکی زراعت کو ترقی دلوانے کے لیے ان کاشتکاروں کا پالیسی سازی میں ہونا لازمی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

محمد ارشد قریشی Mar 13, 2015 03:25pm
بہت معلوماتی تحریر ہے بہت دکھ ہوتا ہیکہ ہم ایک زرعی ملک میں رہتے ہوئے کئی زرعی نعمتوں سے محروم ہیں مجھے ایک بات کا اور بہت شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں پھولوں کی کاشت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی جو کہ نہ صرف ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں بلکہ ان کو خوشبووں اور دواوں میں بھی استمال کیا جاتا ہے یہ ملک میں قدرتی شہد کی پیداوار میں بھی مددگاع ثابت ہوتے ہیں ۔
سہیل یوسف Mar 13, 2015 09:36pm
بہت اچھی تحریر، تاہم پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل نے کئی اہم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تازہ سائنسی تحقیقات عام کسان تک پہنچائی جائیں ۔ دوسری جانب میڈیا کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ زراعت اور ماحولیات کو خصوصی جگہ دے اور ایسے اداروں پر نظر رکھے اور کسانوں کی بھی مدد کرے۔ ایک دلچسپ ایجاد ’ہیپی سیڈر‘ ہے جو ہندوستانی پنجاب میں خوب استعمال ہورہی ہے جو چاول کی پھوگ کو جلائے بغیر گندم کی بوائی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں پنجاب کے کسان بھی اس سے ناواقف ہیں۔ ڈان ایسے مضامین کو خصوصی جگہ دے۔
ali Mar 14, 2015 09:47am
Decentralized system has posed many negative consequences on agriculture services. The DCO's are more interested to engage the agricultural extension staff in irrelevant jobs including dengue control, sasta bazar scheme, etc. etc.
سہیل سانگی Mar 14, 2015 10:34am
منیزہ جاوید صاحبہ آپ نے بالکل صحیح مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔ میں اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ سندھ میں ٹنڈو جام کے مقام پر زرعی یونیورسٹی گزشتہ چالیس سال سے کام کر رہی ہے ۔ ہر سال ہزاروں طلباءاس یونورسٹی سے گریجوئشن کر رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں مویشیوں کی پالنا اور علاج کے لئے انسٹیٹیوٹ بھی کام کر رہا ہے۔ جبکہ لاڑکانہ کے شہر ڈوکری میں زرعی کالیج، سکرنڈ میں نئی زرعی یونورسٹی اور خیرپور میں زرعی کالج حال ہی میں قائم کئے گئے ہیں۔ یہ سب پروفیشنل ادارے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے سب سے زیادہ بیروزگاروں کی تعداد زرعی گریجوئیٹس کی ہے۔ حکومت سیاسی بنیادوں پر تعلیمی ادارے قائم کر رہی ہے۔ صوبے کے تھر، کوہستان ، کاچھو جیسے صحرائی علاقوں کے زرعی خواہ مویشیوں کی ترقی کے لئے کوئی اقدام نہیں کر رہی۔ جو حکومت کی عدم توجہگی کی وجہ سے غربت، قحط اور بیروزگاری کا شکار ہوتے ہیں۔ ہم فصلوں میں تنوع لانے کے بجائے کپاس، گنے پر ہی توجہ دے رہے ہیں۔ ان دونوں فصلوں کی کھپت کے لئے کارٹیل بن چکے ہیں جس سے عام کسان اور عام کاشتکار کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ جبکہ دوسری کسی فصل پر توجہ دینے کے لئے نہ تعلیمی اور تحقیقی ادارے اور نہ ہی حکومتی ادارے تیار ہیں۔