سوات کے بچے تعلیم سے محروم کیوں؟

17 مارچ 2015
حکومت اگر تعلیم آسان نہیں بنا سکتی، تو اسے پہلے سے زیادہ مشکل بھی نہ بنائے۔ — اے پی
حکومت اگر تعلیم آسان نہیں بنا سکتی، تو اسے پہلے سے زیادہ مشکل بھی نہ بنائے۔ — اے پی

جب 2010 میں پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم متعارف کروائی گئی تو آئین کے آرٹیکل 25 (a) میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی کہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے، یعنی پانچ سے سولہ سال کے ہر بچے کو مفت تعلیم دینا اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔ آرٹیکل 25 (a) میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجیں گے تو اُن کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

گذشتہ کئی سالوں سے ہم بڑے فخر کے ساتھ آرٹیکل 25 (a) کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور تعلیم کو مفت قرار دینے کو جمہوری حکومت کا برا کارنامہ قرار دیتے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں اب بھی کئی بچے مختلف وجوہات کی بنا پر تعلیم سے محروم ہیں، لیکن ان کے مسائل حل نہیں کیے جا رہے۔

پڑھیے: پاکستان میں تعلیم کی صورتحال اندازوں سے بھی زیادہ بدترین

پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کو ہر عام و خاص کے لیے مفت قرار دیا گیا۔ سب ہی نے حکومت کے اس فیصلے کو ملک و قوم کے لیے بہترین اقدام قرار دیا، لیکن ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ ایسے فیصلوں کو اکثر بالائے طاق رکھا جاتا ہے اور بہت کم ہی لوگ اس سے مستفید ہو پاتے ہیں۔ ہمارے صوبے خیبر پختونخواہ میں اب بھی ایسے بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں اکثر بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں یا انہیں جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ہے۔ ان علاقوں میں سوات کوہستان بھی شامل ہے۔ سوات کوہستان میں 25 فیصد گرلز پرائمری اسکولز ابھی بھی سال بھر بارہ مہینے خالی رہتے ہیں جنہیں لوگ گھاس اور لکڑی رکھنے کے لیے گودام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

حال ہی میں پی ٹی آئی حکومت نے کے پی میں Independent Monitoring Unit قائم کیا ہے جس کے ذریعے ہر اسکول کا بِلا تفریق معائنہ کیا جاتا ہے اور اس سسٹم کے ذریعے خیبر پختونخواہ کے زیریں علاقوں میں کافی بہتری آئی ہے اور بہت سارے ٹیچرز کو ذمہ داریوں سے غفلت برتنے پر معطل بھی کیا گیا ہے لیکن دور دراز علاقے اب بھی نظرانداز کیے جاتے ہیں، کیونکہ مانیٹرنگ ٹیمیں پہاڑی علاقوں میں بہت کم جایا کرتی ہیں۔ ان بالائی علاقوں تحصیل بحرین اور سوات کوہستان کے مختلف علاقوں مانکیال، گورنئی، پونکیا، بالاکوٹ، چم گھڑی، رامیٹ، اریانئی، بڈئی سیرئی، ساتال اور کئی دیگر گاؤں میں گرلز پرائمری اسکولز اکثر سال بھر خالی ہی پائے جاتے ہیں، علاقے کے باقی اسکولوں میں پانچ پانچ کلاسوں کے لیے صرف ایک ہی ٹیچر تعینات ہے جو کہ بچوں اور ٹیچرز کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ علاقے میں تعینات اکثر اساتذہ کا تعلق بھی سوات کے زیریں علاقوں سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہفتے میں صرف تین دن اسکول میں حاضری دے پاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: کیا تعلیم جمہوری حکومت کی ترجیحات میں ہے؟

پچھلے دنوں جب ایک اسکول وزٹ کرنے کا اتفاق ہوا، جس کی تعمیر پر کبھی حکومت نے لاکھوں روپیہ خرچ کیے تھے، تو معلوم ہوا کہ اسکول صرف گھاس اور لکڑی رکھنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ بحرین کے علاقے ڈہرئی گورنئی میں گرلز پرائمری اسکول پچھلے پانچ سال سے بند ہے۔ علاقے کے مکینوں اور مذکورہ اسکول کے چوکیدار کا کہنا ہے کہ جب اسکول بنا تو شروع شروع میں یہاں دو غیر مقامی فیمیل ٹیچرز تعینات تھیں، لیکن دو سال گزرنے کے بعد انہوں نے اپنے علاقوں میں ٹرانسفر کروا لیا اور تب سے اسکول ٹیچرز سے محروم ہے۔ بچوں کے والدین کئی بار متعلقہ افسران کو شکایت کر چکے ہیں لیکن کسی نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ مکینوں کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب کے بعد یہاں کوئی نہیں آیا ہے۔

اس تمام صورتحال کو دیکھ کر جب متعلقہ افسران سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس اسکول کو وہاں سے کیدام منتقل کر دیا گیا ہے جو کہ پرُانے اسکول ڈہرئی سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ جب اس سکول کو ڈہرئی سے کیدام منتقل کیا گیا، تو یہ کسی نے نہیں سوچا کہ اسکول جانے والے چھوٹے چھوٹے بچے روزانہ چھ کلومیٹر پیدل سفر نہیں کر سکیں گے یا اس اسکول کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے سے 150 کے لگ بھگ طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔

اتنی اہم فیصلہ سازی اتنے سادہ سے سوالات کو مدِنظر رکھے بغیر کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ مانا کہ یہ علاقے دور دراز ہیں اور یہاں کئی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، لیکن کیا حکومتی مشینری اب بھی اتنی قابل نہیں کہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے تعلیم کا حصول آسان بنا سکے؟

اسکولوں میں ٹیچنگ اسٹاف کی حاضری یقینی بنانے کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت کو چاہیے کہ سوات کوہستان جیسے دور دراز علاقوں کو ہارڈ (Hard) ایریا قرار دے کر یہاں کے لوکل اسٹاف کو ترجیح دی جائے اور ان کے لیے میرٹ کو تھوڑا نیچے رکھا جائے تاکہ وہ اپنے علاقوں میں تعینات ہو کر ریگولر ڈیوٹی کر سکیں۔

جانیے: گوسڑو ماستر تعلیم کے لیے خطرہ

آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کا تعلق کراچی سے ہو، اور آپ کی ڈیوٹی سندھ کے کسی دور دراز علاقے میں لگا دی جائے، تو کیا آپ بہتر طور پر ڈیوٹی کر پائیں گے؟ اور اگر آپ کے ہی مقابلے میں اس علاقے یا اس سے نزدیک ترین علاقے کے کسی ٹیچر کو تعینات کیا جائے تو کیا وہ آپ سے بہتر طور پر ذمہ داری ادا نہیں کرے گا؟ جب دور دراز علاقوں کے اساتذہ کو تعینات کیا جائے گا تو وہ غیر حاضر ہی تو رہیں گے۔

یہاں کے بچوں میں صلاحیت کم نہیں، لیکن اگر انہیں تعلیم نہ فراہم کی گئی تو ان کی صلاحیتیں بیکار ہیں۔ اگر آج یہ بچے تعلیم حاصل نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور نسل علاقے و ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کردار ادا نہیں کر پائے گی جو تعلیم حاصل کر کے کیا جا سکتا ہے۔

بچے چاہے سوات کے ہوں یا کراچی کے، تعلیم سب کا بنیادی حق ہے اور حکومت اور افسران کو چاہیے کہ اگر وہ تعلیم کو آسان نہیں بنا سکتے، تو کم از کم جتنی آسان ہے اس سے مشکل تو نہ بنائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں