محمد علی: براڈکاسٹر سے شہنشاہِ جذبات تک

19 مارچ 2015
ان کی جذباتی اداکاری اور ان کی پرکشش شخصیت آج بھی ان کے مداحوں کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔
ان کی جذباتی اداکاری اور ان کی پرکشش شخصیت آج بھی ان کے مداحوں کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔

ایک طرف دنیا اسے علی بھائی، بھیا، سپر سٹار، لیجنڈ سٹار، ملینیم سٹار اور شہنشاہ جذبات کے نام سے جانتی ہے، تو دوسری طرف ایک طبقہ اسے مسیحا کا نام بھی دیتا ہے جس کے سامنے کوئی بھی سوال لے کر گیا تو خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ جب کیمرے کے سامنے کسی جذباتی منظر کی عکس بندی کی جارہی ہوتی تو وہ اس سکرپٹ کو اس طرح اپنے اوپر طاری کرتا کہ آنکھوں سے خود بخود آنسو بہنا شروع ہو جاتے اور جب وہ منظر اسکرین پر چلتا تو دیکھنے والا اس دکھ کو اس سکھ کو اپنے اندر محسوس کرکے فطری ردعمل پر مجبور ہو جاتا۔

1938ء میں بھارتی شہر رام پور کے سادات گھرانے میں پیدا ہونے والے محمد علی کو قدرت نے لازوال صلاحیتوں سے مالا مال کر دیا تھا۔ ان میں نہ صرف اداکاری کا ٹیلنٹ تھا، بلکہ وہ تعلیم میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔

قدرت نے انہیں ہمیشہ حالت سفر میں رکھا۔ آزادی پاکستان کے بعد یہ خاندان پاکستان ہجرت کر آیا۔ پہلا پڑاؤ حیدرآباد ڈالا مگر پھر ملتان کی جانب رختِ سفر باندھا۔ وہ ایک ایسے بادل کی طرح تھا جسے ہوائیں جہاں جہاں بھی لے کر گئیں، وہاں اتنا برسا کہ ہر طرف جل تھل ہو گئی۔ پھر ہواؤں کا دوش انہیں واپس حیدرآباد لے گیا اور وہاں سے سٹی کالج حیدرآباد سے گریجوایشن کی۔

1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدر آباد میں بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہو گئے جہاں ان کا معاوضہ دس روپے فی ڈرامہ تھا۔ وہ دور ریڈیو کا دور تھا جس کا جادو ہر جگہ بولتا تھا اور محمد علی کو یہ خداد صلاحیت حاصل تھی کہ ان کا لب و لہجہ اور آواز کا اتار چڑھاؤ الفاظ کو زندہ اجسام میں بدل کر رکھ دیتا تھا جو کہ سننے والے کی روح میں اتر جاتے تھے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وہ ریڈیو پاکستان بہاولپور آگئے اور پھر وہاں سے ریڈیو پاکستان کراچی۔

ذوالفقار علی بخاری جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان تھے، وہ ان کی صلاحیتوں کو جان گئے کہ ان کی صلاحیتیں صرف ایک صداکار کی ہی نہیں، بلکہ ان میں ایک اداکار بھی پنہاں ہے۔ انہوں نے محمد علی کا ہاتھ نامور شاعر اور فلم پروڈیوسر فضل احمد کریم فضلی کے ہاتھ میں تھما دیا اور انہوں نے محمد علی کو اپنی فلم 'چراغ جلتا رہا' میں مرکزی کردار کی پیشکش کی مگر محمد علی نے بطور ولن کام کرنے کی حامی بھری۔ اس فلم میں صرف محمد علی ہی نہیں بلکہ زیبا، دیبا اور کمال ایرانی بھی پہلی مرتبہ پردہ سکرین پر دکھائی دیے اور اس کے بعد یہ سب آنے والے دنوں میں فلم انڈسٹری کے روشن ستارے بن کر ہر سو روشنیاں بکھیرتے رہے۔

محمد علی اور زیبا کے فلمی سفر کی یہ پہلی فلم تھی۔ بعد میں 29 ستمبر 1966ء کو دونوں زندگی بھر کے ساتھی بن گئے۔ چراغ جلتا رہا کا فلم پریمئر 9 مارچ 1962ء کو نشاط سنیما میں ہوا جس میں فاطمہ جناح نے شرکت کی۔ اس کے بعد انہوں نے فلم 'بہادر'، 'دال میں کالا' اور 'دل نے تجھے مان لیا' میں بطور ولن کام کرنا پسند کیا۔

وہ دور انسان دوستی کا تھا۔ فلمیں تفریح کے ساتھ ساتھ بامقصد اور اصلاحی پہلوؤں کے مزاج کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر 'انصاف اور قانون'، 'انسان اور آدمی'، 'کنیز'، 'میرا گھر میری جنت'، 'فسانہ زندگی کا'، 'آئینہ اور صورت'، 'پھول میرے گلشن کا'، 'مادر وطن'، 'بھروسا'، 'گھرانہ'، 'دوریاں'، 'سلاخیں'، 'آگ'، 'جیسے جانتے نہیں' اس زمانے کی مشہور فلمیں ہیں، جبکہ محمد علی نے اس کے علاوہ 'باجی'، 'شرارت'، 'آگ کا دریا'، 'ٹیپو سلطان'، 'حیدر علی'، 'لوری'، 'حاتم طائی'، 'صاعقہ'، 'نیلا پربت'، 'بازی'، 'خاک اور خون'، 'محبت زندگی ہے'، 'اک گناہ اور سہی'، 'خدا اور محبت'، 'آواز'، 'جب جب پھول کھلے'، 'روٹی کپڑا اور انسان' کے علاوہ بھی بے شمار اعلیٰ معیار کی فلموں میں کام کیا۔

دلیپ کمار جیسے کہنہ مشق اداکار بھی ان کی اداکاری اور شخصیت کے معترف تھے۔ دلیپ کمار اپنی اہلیہ سائرہ بانو کے ہمراہ جب بھی پاکستان آئے تو ان کا رخ سیدھا محمد علی اور زیبا کی طرف ہوتا تھا۔ راج کپور فیملی اور منوج کمار سے بھی ان کے ذاتی مراسم تھے۔ جب محمد علی اور زیبا ہندوستان کے دورے پر گئے، تو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انہیں اسٹیٹ گیسٹ کا رتبہ دیتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس میں دعوت دی۔

محمد علی نواز شریف کے دور میں مشیرِ ثقافت کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انہوں نے 250 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انہیں ان کی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، تمغہ امتیاز، اور دیگر بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان خیر سگالی کے فروغ میں ان کی خدمات فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ انہوں نے پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی بے پناہ شہرت حاصل کی۔ محمد علی نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں اور مثبت شخصیت کی وجہ سے اداکاری کا نہ صرف وقار بلند کیا، بلکہ معاشرے میں فنکار کا کردار بھی واضح کیا۔

19 مارچ 2006ء کو وہ حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہاں وہ اس دنیا سے چلے گئے، لیکن ان کی شاندار کارکرگی، ان کی جذباتی اداکاری، اور ان کی پرکشش شخصیت آج بھی ان کے مداحوں کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

amer Mar 20, 2015 01:55pm
Impressive article on a great person