'ایم کیو ایم کو تحلیل کیا جائے'
اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے اور اسلحے کی بھاری کھیپ کی مبینہ برآمدگی کے بعد ایم کیو ایم کو تحلیل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کردی گئی ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ طارق اسد کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بادی النظر میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ الطاف حسین کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ دہشت گردی میں ملوث رہی ہے اور ان کے بعض اعمال خصوصاً لوگوں کو تشدد پراُکسانا ملکی قانون کے تحت گھناؤنے جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
طارق اسد کے مطابق نائن زیرو پر چھاپے کے دوران خطرناک ٹارگٹ کلرز اور دیگر مطلوب افراد سمیت 100 سے زائد دہشت گرد گرفتار ہوئے، جبکہ بھاری تعداد میں اسلحہ، دھماکہ خیز مواد اور نیٹو اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔
درخواست گزار نے 'صولت مرزا اور دیگر کے انکشافات' کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ 'دہشت گردی کی سرگرمیوں' کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم کیوایم کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر (پی پی او) 2002 کے آرٹیکل 15 کے تحت تحلیل کیا جائے۔
پی پی او کے آرٹیکل 15 کے تحت اگر کوئی جماعت غیر ملکی امداد سے قائم کی گئی ہو یا چلائی جاتی ہو یا وہ کسی بھی طرح پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف کام کررہی ہو یا دہشت گردی میں ملوث ہو تو وفاقی حکومت آفیشل گزٹ میں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اس بات کا اعلان کرسکتی ہے۔
اس اعلامیہ کے 15 دن بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سپرد کردیا جاتا ہے اور اگر عدالت عظمیٰ اس اعلان کو برقرار رکھے تو پھر سیاسی جماعت کو فوری طور پر تحلیل کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو نائن زیرو پر چھاپے کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے چکی ہے اور اگر ان تمام شواہد اور ریکارڈ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایم کیو ایم دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے تو عدالت وفاقی حکومت کو پی پی او کے آرٹیکل 15 کے تحت ڈیکلریشن جاری کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
عدالت، ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کو طلب کرنے کا بھی حکم دے چکی ہے جبکہ صولت مرزا اور عامر خان کی جانب سے دیئے گئے بیانات کے حوالے سے بھی تحقیقات کا حکم دیا جاچکا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو الطاف حسین کی لائیو اور ٹیلیوفونک تقاریر بلاک کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں۔
پٹیشن میں دیگر آئینی سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کیا ایک برطانوی شہری پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا رہنما رہ سکتا ہے اور کیا الطاف حسین اپنے ٹیلیوفونک خطاب میں لوگوں کو امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے ہدایات دینے کے حقدار ہیں؟











لائیو ٹی وی