قطر میں طالبان کا دفتر دوبارہ کھولنے پر اتفاق

اپ ڈیٹ 05 مئ 2015
قطر کے شہردوحہ میں 2013ء میں قائم کیا جانے والا طالبان کا دفترجو ایک بار پھر افغان مذاکراتی عمل کے لئے عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے — اے پی فائل فوٹو
قطر کے شہردوحہ میں 2013ء میں قائم کیا جانے والا طالبان کا دفترجو ایک بار پھر افغان مذاکراتی عمل کے لئے عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے — اے پی فائل فوٹو

قطر: یہاں جاری افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں دونوں فریقین کے درمیان قطر میں طالبان کا دفتر کو دوبارہ کھولنے پر اتفاق قائم ہوگیا ہے۔

افغان امن مذاکراتی عمل کی شروعات کے حوالے سے قطر میں دو روزہ اجلاس منعقد ہوا اجلاس میں طالبان رہنما، افغان حکومت کے عہدیداران اور اقوام متحدہ کے مندوبین سمیت 40 افراد نے شرکت کی۔

قطر میں ہونے والا مذکورہ اجلاس افغان امن مذاکرات کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ 2001 میں امریکی فوجی مداخلت کے بعد افغانستان سے طالبان کی حکومت ختم کردی گئی تھی جس کے بعد وہاں جاری جنگ کے باعث اب تک لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

افغان حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں طالبان کی جانب سے افغانستان کے صوبے بدخشاں میں 18 افغان پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیے جانے کے بعد امن مذاکراتی عمل کو ایک بار پھر دھچکا لگا ہے۔

ادھر جنگجوں کی جانب سے قندوز کے علاقے میں بھی کاررائیوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے۔

دو روزہ اجلاس میں شریک مندوبین نے اتفاق کیا ہے کہ دوحہ میں 2013ء میں بند کردیے گئے طالبان کے سیاسی دفتر کو مذاکراتی عمل کے لیے دوبارہ کھول دیا جائے۔

واضح رہے کہ افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے ملک میں جاری لڑائی کو ختم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے عالمی طاقتوں اور پاکستان سے بھی خصوصی مدد فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

مندوبین نے طالبان کے اہم رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے کی بھی سفارش کی ہے تاکہ وہ مذاکراتی عمل میں شرکت کے لیے افغانستان سے باہر سفر کرسکیں۔

اجلاس کے اختتام پر افغان حکومت کی جانب سے طالبان سے ملک میں جنگی بندی کے مطالبے جبکہ طالبان کے ملک سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے کیے جانے والے مطالبہ کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

افغان حکومت کا کہنا ہے کہ ملک سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلاء پہلے ہی ہوچکا ہے اور صرف 10 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو افغانستان کی فوج کو ٹریننگ دینے کے لیے یہاں موجود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں