آلوک کہانیاں: انا

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
کچھ دیر پہلے تک جو لوگ اسے پستہ قد نظر آرہے تھے، وہ اب خود بخود ہی اس سے اونچے ہوگئے تھے۔ — Creative Commons
کچھ دیر پہلے تک جو لوگ اسے پستہ قد نظر آرہے تھے، وہ اب خود بخود ہی اس سے اونچے ہوگئے تھے۔ — Creative Commons

انا

وہ انا کے پہاڑ کی چوٹی پرکھڑا تھا۔ اسے وہاں سے نیچے اپنے چاروں طرف کھڑے لوگ پستہ قد نظر آ رہے تھے۔ نیچے کھڑے ہوئے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر وہ تالی بجا بجا کر زور زور سے ہنسنے لگا، اس چکرمیں وہ اپنا توازن کھو بیٹھا، اور وہاں سے نیچے گر پڑا۔

اب وہ پیٹھ کے بل پر زمین پر پڑا ہوا تھا، اور کچھ دیر پہلے تک جو لوگ اسے پستہ قد نظر آرہے تھے، وہ اب خود بخود ہی اس سے اونچے ہوگئے تھے۔


دھوکہ

”گروجی وہ امیر اپنی غریبی کا رونا روتا رہا، اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جھوٹ بول کر آپ کو دھوکا دے رہا ہے، آپ نے اس سے کچھ نہیں کہا، بلکہ دھیرے دھیرے مسکراتے رہے۔ آخر کیوں؟“ شاگرد نے گرو سے پوچھا۔

”بیٹا، جھوٹ بول کر وہ مجھے نہیں، بلکہ خود کو دھوکا دے رہا تھا، اور خود کو خود سے دھوکا کھاتے دیکھ کر میرے لبوں پر مسکراہٹ تیر گئی۔“ گرو نے جواب دیا۔


آدمیت

اس نے دوکتے پال رکھے تھے۔ کھانا کھلاتے وقت وہ انہیں غور سے دیکھتا تو پاتا کہ ان میں سے ایک کتا تو پورا ختم ہونے تک مسلسل دم ہلاتا رہتا، جبکہ دوسرے کتے کی دم ذرا بھی نہیں ہلتی۔ اسے اس دوسرے کتے پر چڑ سی ہونے لگی، اور اس نے اسے تنگ کرنا شروع کردیا۔ اسے تنگ کرنے میں اسے بڑا ہی مزہ آتا، اور آخر میں اس نے گھر سے نکال باہر کیا، اور بازار سے دوسرا دم ہلانے والا کتا خرید لایا۔


مطلب

وہ جیسے ہی بس اسٹینڈ پہنچا، اس کی بس نکل گئی۔ وہ اس بس کو کوسنے لگا: ”سالی رائٹ ٹائم پرچھوٹ گئی۔“ تبھی اس کے اندرسے آواز آئی: ”میں نے کتنی دفعہ تمہیں وقت کی اہمیت بتائی ہے پر تم ہو کہ بس …… بس نہیں چھوٹی پیارے، چھوٹ تو آپ گئے ہیں۔“

”خاموش رہ، جب بھی بولے گی، برا بولے گی۔“ اس نے اس آواز کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ اس پر وہ آواز طنز والی ہنسی میں تبدیل ہوگئی، اور وہ کھیجتا، جھینکتا ہوا واپس اپنے گھرکی طرف لوٹنے لگا۔


سوری

”آپ نے میری گاڑی کو پیچھے سے کیوں ٹھونکا؟“

”سوری!“

”کیا سوری؟ میری گاڑی کی بیک لائٹ پھوٹ گئی۔“

”میں نے کہا نا سوری۔“

”ارے آپ تو سوری ایسے کہہ رہے ہیں جیسے احسان کررہے ہوں۔“

”ابے سالے جب سے سوری بول رہا ہوں۔ تیرے کو سمجھ میں نہیں آتا ہے کیا؟ بتاؤں کیا تیرے کو؟“

”معاف کیجیے گا بھائی صاحب غلطی میری ہی تھی۔ دراصل میں ہی آپ کی گاڑی کے سامنے آ گیا تھا……سوری۔“

تبصرے (3) بند ہیں

Rashid Ali May 14, 2015 05:13pm
Creative & thought provoking, nice and all the best آلوک کمار ساتپوتے
Aafaq May 14, 2015 07:27pm
آلوک کمار ساتپوتے zabardast janab bohot ache lessons hain..Thanks and keep the good work going on. (:
Adeel Ahmed May 14, 2015 11:42pm
A few Realities Nice