پکوان کہانی: کھچڑی

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2015
چاول اور دالیں جب ساتھ پکائی جائیں تو یہ ان امینو ایسڈز کا ملاپ ہوتا ہے جو ہمارے جسم کی بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ — تصویر بشکریہ فواد احمد
چاول اور دالیں جب ساتھ پکائی جائیں تو یہ ان امینو ایسڈز کا ملاپ ہوتا ہے جو ہمارے جسم کی بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ — تصویر بشکریہ فواد احمد

کھچڑی نام ہے غذائیت سے بھرپور اس لذیذ کھانے کا جو برصغیر کے تمام گھرانوں میں ملک، صوبے، اور قوم کے فرق کے بغیر مشہور و مقبول ہے۔ بچوں کو بھی کھچڑی کھلائی جاتی ہے، اور دادا دادی کو بھی، بلکہ اگر یوں کہیں کہ یہ نوجوانوں کے لیے بھی ایک مکمل غذا ہے، تو غلط نہیں ہو گا۔

ہماری امی کھچڑی رائتے، کچومر سلاد، اور شامی کباب کے ساتھ بنایا کرتی تھیں، اور مجھے گھر پر تیار شدہ کھانوں میں سب سے زیادہ یہی پسند تھا۔

کھچڑی کی تاریخ کچھ ہزار سال پرانی ہے، اور یہ برِصغیر کی اتنی ہی اپنی ہے، جتنی کہ برِصغیر کی اپنی مٹی۔

فاتحین، دریافت کنندہ، اور بادشاہ، ہر کسی نے ہی مقامی کھچڑی کو آزمایا اور اسے پسند کیا۔ اسے اپنے ذائقے کے مطابق تبدیل کیا اور تمام طرح کے مصالحے اس میں شامل کیے، مگر کوئی بھی اس کے اصل ذائقے جتنا بہترین نہیں ہو سکتا جس میں چاول، مونگ کی دال، گھی، تیل، لونگ، زیرہ، اور پانی ہوتا ہے۔ یہ کسانوں سے لے کر بادشاہوں تک کی پسندیدہ غذا ہے۔

یہ ایسا آیورویدک کھانا ہے جسے جسم سے فاسد مادوں کے خاتمے کے لیے تجویز کیا جاتا ہے۔ اس میں ذائقہ اور توانائی برابر ہیں۔ چاول اور دالیں جب ساتھ پکائی جائیں تو یہ ان امینو ایسڈز کا ملاپ ہوتا ہے جو ہمارے جسم کی بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔

ہرے کرشن بک آف ویجیٹیرن کوکنگ میں لکھا ہے:

آئرن اور وٹامن بی سے بھرپور ہونے کے علاوہ دال پروٹین کا بنیادی ذریعہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر چاول کا قابلِ استعمال پروٹین (60 فیصد) اور دال کا قابلِ استعمال پروٹین (65 فیصد) اس وقت 85 فیصد ہوجاتا ہے جب دونوں کو ساتھ کھایا جائے۔

جب جلاوطن مغل شہنشاہ ہمایوں فارس میں رہ رہے تھے، تو انہوں نے فارس کے بادشاہ کی ہندوستانی طرز کی دعوت کی۔ بادشاہ کو 'چنوں کے ساتھ چاول' کی ہندوستانی ڈش بہت پسند آئی، جو کہ کھچڑی کی ایک مقبول صورت تھی۔

لزی کولنگھم اپنی کتاب 'کری' میں لکھتی ہیں:

16ہویں اور 17ہویں صدی کے ہندوستان میں دیہات کے رہنے والے ہاریوں اور شہروں کے مزدور طبقے کا پسندیدہ کھانا دو اجناس کا سادہ ملاپ، کھچڑی، ہوا کرتا جسے تھوڑے سے پانی میں ابالا جاتا۔ ہر خطے کی اپنی ترکیب تھی، اور یہ اس پر منحصر تھا کہ وہ کون سی دال زیادہ اگاتے ہیں۔ اچار اور نمکین مچھلی بھی کھچڑی کے ساتھ شوق سے کھائی جاتی۔

گجراتی کھچڑی کو مغل دربار میں جہانگیر نے متعارف کروایا۔ صوبہ گجرات سے گزرتے ہوئے انہوں نے مقامی کھچڑی چکھی جس میں چاول کے بجائے باجرے کا استعمال کیا گیا تھا۔ فوراً ہی ایک گجراتی خانساماں کو شاہی باورچی خانے میں بھرتی کر لیا گیا۔ اور اس طرح دیہاتیوں کی ایک سادہ غذا دربار کا پکوان بن گئی۔

کھچڑی کے مزید ذائقے مغل پکوان میں شامل کیے گئے۔ شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں سیباسٹین مینریک کو بنگالیوں کی دعوت میں کھائی جانے والی کھچڑی سے کہیں زیادہ مہنگی کھچڑی کھلائی گئی۔ اس میں بیش قیمت اجزاء جیسے بادام، کشمش، لونگ، جاوتری، جائفل، دار چینی، اور کالی مرچ شامل تھی۔

آئینِ اکبری میں ابو الفضل کی تحریر کردہ کھچڑی کی ترکیب

5 سیر چاول

5 سیر مونگ کی دال

5 سیر گھی

ایک تہائی سیر نمک

(1 سیر ڈھائی پاؤنڈ یا 1 کلو 130 گرام کے برابر ہوتا ہے۔)

ہماری کھچڑی کو برطانیہ نے کیڈیگری میں تبدیل کیا۔ انہوں نے اس میں ابلے ہوئے انڈے اور مچھلی شامل کی جبکہ دال کو بالکل ترک کر دیا۔

جس طرح نرگسی کوفتہ اسکاچ ایگز سے تعلق رکھتا ہے، اسی طرح کھچڑی کیڈیگری سے۔ اینگلو انڈینز کھچڑی (دال اور چاول والی) صبح کے ناشتے میں تازہ پکڑی گئی مچھلی کے ساتھ کھاتے تھے۔ مگر مرکزی برطانیہ میں متعارف ہونے کے بعد وہاں کے بڑے لوگوں نے ناشتے میں کیڈیگری کھانا شروع کی، اور مچھلی کو چاولوں میں شامل کر کے دال کو ترک کر دیا۔

ایلن ڈیوڈسن اپنی کتاب The Oxford Companion For Food میں کہتے ہیں:

کیڈیگری، جو حقیقت میں کھچڑی ہے، ایک روایتی ہندوستانی ڈش ہے، جسے کئی صدیوں سے سیاح بیان کرتے آ رہے ہیں۔ ہوبسن جوبسن عرب سیاح ابنِ بطوطہ (1340) کے حوالے سے لکھتے ہیں 'منج (مونگ) کو چاول کے ساتھ ابالا جاتا ہے، اور پھر مکھن کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ اسے یہ لوگ کشری کہتے ہیں اور اس سے صبح کا ناشتہ کرتے ہیں۔'

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کھچڑی کے لاتعداد ذائقے اور ترکیبات ہیں، مگر میری پسندیدہ اب بھی وہی اصلی کھچڑی ہے۔ اب یہ میرے کچن سے آپ کے کچن کا رخ کر رہی ہے۔

اجزاء

آدھا کپ مونگ کی دال

1 کپ چاول

3 سے 4 کپ پانی، یا حسبِ ضرورت

چوتھائی چمچ زیرہ

3 سے 4 کڑی پتہ

3 سے 4 لونگ

نمک حسبِ ذائقہ

طریقہ کار

چاول اور دال کو الگ الگ دو گھنٹے کے لیے بھگو دیں۔ پھر انہیں اچھی طرح دھو لیں۔ 3 سے 4 چمچ تیل یا گھی لے کر اس میں کڑی پتہ اور لونگ کو چند سیکنڈ کے لیے تلیں، اور پھر دال اور چاول کو آہستہ سے اس میں شامل کر دیں۔ 8 سے 10 منٹ کے لیے تلیں۔

اب پانی ڈالیں اور درمیانی آنچ پر رکھیں۔ ڈھک کر پکائیں اور آنچ کو بالکل ہلکا کر کے (ڈھکے رکھ کر) تب تک پکائیں جب تک دال اور چاول نرم نہ ہوجائیں۔ ضرورت ہو تو مزید پانی شامل کریں۔

اگر آپ سبزیاں شامل کرنا چاہیں تو پالک، ٹماٹر، گوبھی، یا چنے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ انہیں تب شامل کیا جانا چاہیے جب کھچڑی تین چوتھائی تیار ہو چکی ہو۔

زیرہ اور پیاز کا بگھار اس پر چھڑکیں، اور رائتے، سلاد، اور شامی کباب کے ساتھ پیش کریں۔


— تصاویر بشکریہ فواد احمد۔

مزید پکوان کہانیوں کے لیے کلک کریں.

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (2) بند ہیں

Waseem Sep 06, 2015 02:43pm
بسمہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہر کھانےکی ترکیب میں کہتی ہے یہ بچپن میں میرا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا تھا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اسے یاد نہیں رہتا کہ پچھلی دفعہ تو کسی اور چیز کو اپنا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا قرار دیا تھا۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 06, 2015 07:51pm
مجھ کو کھانے کا شوق نہیں ہے۔ میں صرف اتنا ہی کھاتا ہوں جس سے تُر پِھر سکوں اور کام کرنے کے قابل ہو سکوں۔ میرا فلسفہ ہے کہ کھانے والے کام کرنے والے نہیں ہوتے خاص کر تخلیقی کام۔ اور پھر بزرگوں کے اس قول کی وجہ سے بھی میں کم کھاتا ہوں ‘کھاؤ اتنا جتنا ہضم کر سکو، پڑھو اتنا جتنا جذب کر سکو‘۔ ہاں البتہ کبھی کبھار کھانے کے لیے کوئی چسکہ لگانے کو دل کرتا ہے اور میں خود کچن سنبھال لیتا ہوں چکسے کو ختم کرنے کے لیے۔