تعلیم برائے فروخت ... قیمت؟

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2015
— خاکہ بشکریہ میر سہیل برائے کشمیر ریڈر۔ پیشگی اجازت سے شائع کیا گیا۔
— خاکہ بشکریہ میر سہیل برائے کشمیر ریڈر۔ پیشگی اجازت سے شائع کیا گیا۔

اب تک تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ نجی اسکولوں کی فیسوں میں حالیہ اضافے کے خلاف پنجاب میں ایک احتجاجی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ ملک کے نامور ترین اسکولوں نے اچانک بغیر کوئی وجہ بتائے، بغیر کوئی تاویل پیش کیے فیسوں میں اضافہ کر دیا ہے اور طلباء سے کہا ہے کہ یا تو وہ فیس ادا کریں، یا کوئی دوسرا اسکول ڈھونڈ لیں۔

لاہور، اسلام آباد اور ساہیوال میں والدین سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اور فیسوں میں اس بلاجواز اضافے کے خلاف بلند کر رہے ہیں جو موجودہ معاشی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتا۔

جن اسکولوں کی بات ہورہی ہے، وہ سب سے مشہور اور اونچے درجے کے 'برانڈڈ' اسکول ہیں، جن کی ملک بھر کے تقریباً ہر شہر میں کئی کئی برانچز ہیں، اور ایسی جگہیں ہیں جہاں اپنے بچے کو داخل کروانے کے لیے والدین خواہاں رہتے ہیں۔

شروع میں ودہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا گیا تھا جو اب اس احتجاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس سالانہ 20 ہزار روپے سے لے کر 50 ہزار روپے تک ہو سکتا ہے۔ اور یہ اس فیس کے علاوہ ہے جو والدین پہلے سے ہی ادا کر رہے ہیں۔

نظری اعتبار سے دیکھا جائے تو باقاعدہ ٹیکس فائل کرنے والوں کو اس ٹیکس پر واپس ادائیگی ہوگی، لیکن جو لوگ نان فائلر ہیں، ان کے لیے یہ پیسہ بہت زیادہ ہے۔ ٹیکس وصولی کا دائرہ بڑھانے کا یہ درست طریقہ نہیں ہے، اور خاص طور پر یہ اسکولوں کا مسئلہ تو بالکل بھی نہیں ہے۔

واضح الفاظ میں کہیں تو والدین فیسوں میں سالانہ تین سے چار ہندسوں کے اضافے کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے (جو ظاہر ہے اس لیے ہوتا ہے تاکہ اساتذہ اور اسٹاف کی تنخواہیں بڑھائی جا سکیں)۔

بلکہ والدین کا احتجاج حال ہی میں کیے گئے 15 سے 20 فیصد اضافے کے خلاف ہے جو بغیر کسی نوٹس، وجہ، یا اجازت کے کیا گیا۔

فیسوں میں اس اضافے کی وجہ کیا ہے، والدین جاننا چاہتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اسکول بغیر کسی ٹھوس معاشی وجہ کے والدین پر بھاری بھرکم فیس چالان پھینک کر یہ توقع نہیں کر سکتے کہ والدین ان کی فیسیں ادا کرتے رہیں گے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

نجی اسکولوں کی فیس کا طریقہ کار

ان اسکولوں میں داخلے کے وقت آپ سے ایک ایپلی کیشن یا درخواست فیس وصول کی جاتی ہے، جس کے بعد آپ سے رجسٹریشن فیس وصول کی جاتی ہے (بادی النظر میں یہ دونوں فیسیں مختلف ہیں)۔ اس کے بعد سکیورٹی ڈپازٹ اور پھر پیشگی ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ کچھ اسکولز میں ایک کیٹیگری "سالانہ اخراجات" کے نام سے بھی ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ اسکول کی پکنکس وغیرہ کے اخراجات ہیں۔

لہٰذا ابھی آپ کے بچے نے اسکول میں قدم بھی نہیں رکھا ہوتا کہ آپ ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کر چکے ہوتے ہیں۔ جونیئر کلاسوں میں فیس کم ہوتی ہے، اور یہاں سے والدین کو پھانس کر فیس ہر سال بڑھتی جاتی ہے۔

اس کے بعد ایک حقیقی فیس ہوتی ہے؛ سستے اسکولوں کی 8 ہزار روپے ماہانہ، مہنگے اسکولوں کی 20 ہزار روپے ماہانہ، اور درمیانے درجے کے اسکولوں کی 12 ہزار روپے ماہانہ۔ پھر اس پر سالانہ اضافہ جو کہ کتابوں، کاپیوں، اسٹیشنری، یونیفارمز، ٹرانسپورٹ، اور دیگر منسلک اخراجات کے علاوہ ہے۔

کل ملا کر دیکھا جائے تو آپ اپنے بچے کو سالانہ 4 لاکھ روپے میں پڑھا رہے ہیں۔

ایک اختلافی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ، "اگر آپ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، تو اپنے بچوں کو ان مہنگے اسکولوں میں کیوں بھیجتے ہیں۔" یہ دلیل انتہائی بے ہودہ ہے۔ اسکولوں میں فیسوں میں اضافے کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہوتا، اس لیے آپ پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کر سکتے کہ نجانے کب آپ پر بھاری فیس کا بم گرا دیا جائے، جس کی ادائیگی کے لیے ایک اور تنخواہ لازمی ہو۔

بچوں کو تعلیم دلوانا والدین کے لیے ایک درست کاروباری فیصلے کے بجائے اسکول کے ساتھ ایک طویل مدتی رشتہ ہوتا ہے۔ کچھ اسکول واقعی اپنے طلباء کا خیال رکھتے ہیں، مگر صرف تب تک جب تک والدین ان کی ہر وقت بڑھتی ہوئی فیسیں ادا کرتے رہیں۔

مختلف شہر، مختلف معیار

اس کے علاوہ ملک بھر میں قائم برانچز (یا فرنچائز کہیں) والے اسکولوں میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ آپ اپنے بچے کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے کر جائیں گے، اور آپ کا بچہ سارا کورس بغیر کسی مشکل کے سمجھ جائے گا۔

برانچز کے اندر بالکل مختلف نظام بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کی فیسیں ایک ہی جتنی ہوتی ہیں۔ آپ اپنے بچے کی فیس شیخوپورہ میں بھی اتنی ہی دیں گے جتنی کہ کراچی میں، مگر آپ کے بچے کو تعلیم بھی اتنی ہی بہتر نہیں دی جائے گی۔ تعلیم کو جب کاروبار بنا دیا جائے، تو یہ سب کچھ ہونا لازمی ہے۔

کچھ اسکول ہیں جو ہمیشہ سے ہی مہنگے ہیں۔ والدین جانتے ہیں کہ وہ بڑے نام کے لیے ادائیگی کر رہے ہیں، اور وہ کر سکتے ہیں۔ یہ والدین اس اضافے سے پریشان نہیں ہیں اس لیے ان کی مثال بھی نہیں دی جا سکتی۔

میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو سالانہ پانچ چھٹیوں کو بھی ایک بہت بڑی نعمت سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی اتنی اچھی تنخواہ اور زندگی نہیں پاتے جو ایک استاد کا حق ہوتی ہے۔ ایسے بھی اسکول موجود ہیں جو 5 منٹ دیر سے آنے پر استاد کی پورے دن کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔ سکیورٹی وجوہات کی بناء پر سالانہ پکنک منسوخ ہونا عام بات ہے، لیکن پکنک کے نام پر لیے گئے اخراجات واپس کرنا عام بات نہیں۔


تو اس طرح نجی اسکول والدین سے ایک ایک پیسہ نکلوانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح یہ پھر بھی اساتذہ کو بھرتی اور طلبہ کو داخل کرنے میں آزاد ہیں۔ ان اسکولوں کو تو خلاف ورزی پر پہلے ہی دن بند کر دینا چاہیے۔

خبر ہے کہ اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا گیا ہے اور اسکولوں کو نظم و ضبط میں لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، مگر اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے اور اسکول بخوشی بچوں کی تعلیم کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بالآخر والدین خود ہی اسکول کی فیس ادا کریں گے چاہے جتنی بھی ہو۔

پھر کچھ اسکول ایسے بھی ہیں جنہوں نے داخلے کا نہایت سخت معیار قائم کر رکھا ہے۔ وہ صرف ان طلبہ کو داخل کرتے ہیں جو اچھے نتائج لا سکیں۔ اس سے اسکول کی کارکردگی اور (بورڈ میں) نتائج مصنوعی طور پر زیادہ نظر آتے ہیں، اور ان کی مارکیٹ بہتر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسی اسکول میں داخل کرنا چاہتے ہیں جہاں سے تعلیم حاصل کرنے پر اس کے پاس بہتر مواقع موجود ہوں۔

تعلیم اہم ہے اور بچوں کی تربیت قربانی مانگتی ہے۔ تو اگر والدین فیسوں میں اضافے کا واضح نظام آنے تک فیس کی ادائیگی سے انکار کریں تو مطلب کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے۔

لیکن اگر فیس میں ادائیگی کا کوئی نظام موجود نہ ہو تو یہ رویہ نااہلی کے ساتھ ساتھ بھتہ خوری کے زمرے میں بھی آتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

Sharminda Sep 17, 2015 02:22pm
There are several examples of student topping from government and low fee school. Let parents spoil these school mafias and pay hefty fees. Those who can't afford will eventually go back to gov schools.
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 17, 2015 02:29pm
kin kaamoN meyN parh gaye ho is nannhiy si umar meyN
Ahmed Zarar Sep 17, 2015 02:40pm
this is the golden time to adopt government schools who are in orphan conditions .These schools have classrooms ,grounds and a plenty of space for improvement.They are not in small pigeon-hole houses . It could an other chance for Retied professionals to use their free time to build these schools for their grand children as well as other children.But do it to be Grand parents proud of the grand children and satisfy themselves for serving their people which they cant done before in their busy life's it is not impossible .the best example is al-Suffah academy a t G-10 Islamabad run by educational professionals served in several continents .This is best example for school management. It is not a Hi-Fi school ,it is only for toddlers.They teach them manners only. they clam HUM BUCHON KO TAMEEZ SIKATHAN HAN. may be this is the only one of this kind of school.
Joop Sep 17, 2015 05:18pm
thanx to highlight this burning issue once again let me give you one example of poor menagment in so called branded schools..... i am being victim (teacher) at most branded school, stating here that we had been through a trial infact being there.. teachers are hired and paid like daily wages employs ... on late coming salary is deducted..... if any teacher ever wants to leave the job then her whole salary is being paid at all...this is not a story but a reality as my own (1 month ) salary was not paid too.
Joop Sep 17, 2015 05:21pm
Parents are forced to pay a lot to school but teachers are never facilitated..... they are treated like over loaded animals.... govt should close all private schools OR make attempts to high education level in govt schools...so that poor can also read and write properly without any complexes and financial burden on parents.
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 17, 2015 07:14pm
مجھے نہیں معلوم کہ کن سکولوں کی فیسوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہروں کی خبریں پڑھی ہیں لیکن سکولوں کا نام نہیں بتایا جاتا۔ مظاہرین نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے ہوتے ہیں، ان میں بھی کسی سکول کا نام نہیں ہوتا جس کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا ہو یا جس کی فیسیں بلند ہو گئی ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں سکولوں کا نام نہ ہی مظاہرین ظاہر کر رہے ہیں اور نہ ہی میڈیا؟ لاہور میں تین چار گروپس آف سکولز اینڈ کالجز ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پرائیویٹ سکول بیکن ہاؤس ہے، اور چند ایک وہ انگریزی ناموں والے سکول ہیں جو کہ پانچ دس مرلے کےمکانوں میں کھولے گئے ہیں۔ میں نے بیکن ہاؤس سے لیکر پرائیویٹ گروپس آف سکولز کے تمام قسم کے سکولوں کا نہ صرف ڈیٹا اکٹھا کیا بلکہ ان کی فیسیں، داخلہ فیس،سالانہ فیس، اور دیگر چھپے ہوئے فنڈز بارے معلومات حاصل کیں۔کیونکہ میں نے اپنے مُنڈے کو نرسری کلاس میں داخل کروانا تھا۔ ان سکولوں کی ماہانہ فیس ڈھائی ہزار روپے سے لیکر ساڑھے سات ہزار روپے کی تھی۔بیس ہزار ماہانہ فیس یا تو بیکن ہاؤس کی ہو سکتی ہے یا پھر ایچی سن کی۔سکولوں کی فیسیں بڑھنے کی اہم وجہ انکے مالکان کا حکومتی کارندوں میں شمار ہونا ہے۔
احمد Sep 17, 2015 07:18pm
And now solution: -Start public school (Govt) adoption program by communities, organizations and industrial groups -People should start paying their taxes and demand for 'right for education' -Private school run under free economy principle, you cannot force them but can ignore them
Dr.Afzaal Malik Sep 17, 2015 08:05pm
صرف چند ماہ یا چند سال پہلے کا موازنہ کیا جائے تو پرائیویٹ سکولز کا تمام کچا چٹھا کھل جائیگا۔ بعض سکولوں نے اپنی فیسوں میں 3سے 4سو گنا تک اضافہ کر دیا ہے۔ ظلم یہ کہ جن اڑھائی مہینوں میں سکول بند رہتا ہے اُنکی فیس بھی بچوں سے پیشگی لے لی جاتی ہے جبکہ جو ٹیچرز سکول میں پڑھا رہے ہوتے ہیں اُنہیں تین مہینے کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اگر کسی کو تنخواہ دی بھی جاتی ہے تو اُسے سکولوں میں حاضریاں دینے اور ٹیوشن پڑھانے کا پابند کر دیا جاتا ہے۔ حیرت ہے اس سے قبل ملک میں ہونے والی مہنگائی کا ذمہ دار پٹرولیم کی قیمتوں کو قرار دیا جاتا تھا۔ دُنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں اور ایک تہائی پر آ چکی ہیں۔ پاکستان میں بھی قیمتوں میں 65کی بجائے 35فیصد تک کمی کی گئی ہے۔ اسکے باوجود پرائیویٹ سکولز بھاری فیسیں اور بہانے بہانے سے پیسے بٹور رہے ہیں؟ حکومت کو ایک ریگولیٹری باڈی بنانی چاہئے۔ جو سکول اپنا تمام آڈٹ پیش کریں اُنہیں کلیئرنس دینی چاہئے کہ وہ اپنا ’’کاروبار‘‘ جاری رکھیں۔ اگر حکومت چاہے تو کوئی قانون کی خلاف ورزی کا کبھی ’’سوچ‘‘ بھی نہیں سکتا۔
Dr.Afzaal Malik Sep 17, 2015 09:12pm
راحت احمد سنگھیڑہ صاحب کا تبصرہ درست ہے۔ عامر محمود اور راحت قدوسی سمیت متعدد دوسرے ایسے لوگوں کی مثال سامنے ہے۔ جو حکومتی چھتری تلے بیٹھ کر فیسیں بڑھا رہے ہیں۔
ع غ آزاد Sep 19, 2015 12:07pm
حقیقت یہ ہے کہ دو دنیائیں ہیں 1۔ جہاں تین وقت روٹی پوری ہوتی ہے ۔ جہاں بدن ڈھکے ہوئے ہیں 2۔ جہاں تین وقت روٹی پوری نہیں ہوتی۔ جہاں بدن ڈھکے ہوئے نہیں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ جو تین وقت کی روٹی کھا رہے ہیں وہ کتنا عرصہ جیتے ہیں اور جو تین وقت بھوک سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ کتنے عرصے میں مرتے ہیں۔