آپ کو 'جوانی پھر نہیں آنی' کیوں دیکھنی چاہیے؟

اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2015
جوانی پھر نہیں آنی مکمل طور پر ایک تفریحی فلم ہے— اسکرین گریب بشکریہ جوانی پھر نہیں آنی
جوانی پھر نہیں آنی مکمل طور پر ایک تفریحی فلم ہے— اسکرین گریب بشکریہ جوانی پھر نہیں آنی

اسٹار کاسٹ، غیر ملکی لوکیشنز اور تفریح کی ضمانت کے ساتھ جوانی پھر نہیں آنی (جے پی این اے) باآسانی اس سیزن کی سب سے بڑی ریلیز ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ فلم کئی شعبوں میں متاثر کن ہے جیسے کچھ اداکاروں کی بہترین اداکاری، اسٹائلنگ اور بہت زیادہ مزاح، مگر اس کا معیار کچھ بیکار گانوں، مصنوعات کی تشہیر کے ناگوار انداز، اور بولی وڈ سے بہت زیادہ متاثر ہونے نے گرایا بھی ہے۔ تاہم پھر بھی یہ ہنسنے پر مجبور کردینے والی ایسی تفریحی فلم ہے جو عید کے لیے بہترین ہے۔

شیری اور بدقسمت شوہروں کے گروپ کا تعارف

ہمایوں سعید نے فلم میں ایک وکیل شیری کا کردار ادا کیا ہے جو کئی برسوں بعد امریکا سے واپس آتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس کے تین بہترین دوست اب مظلوم شوہروں کا روپ اختیار کرچکے ہیں۔

شیری اپنے دوستوں کے ہمراہ بینکاک کے دورے کا انتظام کرتا ہے جہاں مہوش حیات، جو ایک انڈر ورلڈ ڈان کی بیٹی ہے، اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ پلاٹ میں پیچیدگی اس وقت آتی ہے جب شیری کے دوستوں کی بیویوں کو سب کچھ پتا چلتا ہے اور جب ان تینوں دوستوں کی شادیاں ٹوٹنے کے قریب پہنچ جاتی ہیں تو شیری خود لاہور کا رخ کرتا ہے تاکہ ایک ارب پتی شخص کی بیٹی سے شادی کرسکے. یہ کردار سوہائے علی ابڑو نے ادا کیا ہے۔

جب مہوش لاہور پہنچ کر شیری پر اپنا حق جتاتی ہے تو ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔

شیری (ہمایوں سعید) اپنے دوستوں کے ساتھ — پبلسٹی فوٹو
شیری (ہمایوں سعید) اپنے دوستوں کے ساتھ — پبلسٹی فوٹو

اس کہانی میں جھول بہت زیادہ ہیں اور شیری اخلاق سے عاری ایسے کردار کا روپ اختیار کرلیتا ہے جس کا مقصد کبھی واضح نہیں ہوتا۔ کہانی کا وہ حصہ جس میں شیری کو ایک ارب پتی کی بیٹی اور انڈر ورلڈ ڈان کی بیٹی دونوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے، براہ راست بولی وڈ فلم ہاﺅس فل ٹو سے اٹھایا ہوا لگتا ہے۔

شیری کی امیدوار ہیروئینز جن کا کردار مہوش اور سوہائے نے ادا کیا — پبلسٹی فوٹو
شیری کی امیدوار ہیروئینز جن کا کردار مہوش اور سوہائے نے ادا کیا — پبلسٹی فوٹو

اس فلم کو جو چیز بچاتی ہے وہ اس کی مجموعی کاسٹ کی اداکاری اور اس میں موجود ہنسنے پر مجبور کردینے والے متعدد لمحات ہیں۔

جوانی پھر نہیں آنی کی کامیڈی بہترین اور اس کی کاسٹ ریڑھ کی ہڈی ہے

رائٹر واسع چوہدری جنہوں نے فلم میں شیری کے ایک دوست کا کردار بھی ادا کیا، نے اسکرپٹ کو ایسے ون لائنر سے بھر دیا ہے جو پاکستانی پاپ کلچر اور مضحکہ خیز حالات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اس میں کچھ اچھے سنجیدہ مناظر بھی ہیں مگر اس کی کم عامیانہ کامیڈی دیکھنے والوں کو قہقہے لگانے اور تالیاں بجانے پر مجبور کردیتی ہے۔

ان مزاحیہ جملوں کا نشانہ اشتہارات کے سلوگن، ڈرامہ سیریلز، فلمیں جیسے وار اور بول، شاہ رخ خان، ٹی وی اینکرز اور اداکار بذات خود ہیں۔ ایک منظر میں سوہائے علی ابڑو برائیڈل ڈیزائنر ایکس وائی زی کے پاس جاتی ہیں جبکہ ایک دوسرے منظر میں حمزہ علی عباسی کو پیارے افضل کہا جاتا ہے۔

واسع چوہدری فلم کے رائٹر — پبلسٹی فوٹو
واسع چوہدری فلم کے رائٹر — پبلسٹی فوٹو

اداکار احمد علی بٹ کے حصے میں کچھ بہترین پرمزاح مناظر آئے جن میں غلطی سے اپنے سسر سے رومان کرنے کی کوشش اور تھائی مساج کے دوران سب کچھ الٹ ہوجانا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی کامیڈی کی ٹائمنگ اس فلم کی چند بہترین چیزوں میں سے ایک ہے۔

کاسٹ میں شامل بیشتر اداکاروں کے کردار مختصر تھے۔ جاوید شیخ اور بشریٰ انصاری دونوں نے مذاق اڑانے والے کردار ادا کیے جو کہ ان کے سابق کرداروں سے مشابہت رکھتے تھے۔ ان دونوں سینئر اداکاروں نے بہترین کام کیا ہے اور دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ فلم کی دلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔

بشریٰ انصاری اور جاوید شیخ — پبلسٹی فوٹو
بشریٰ انصاری اور جاوید شیخ — پبلسٹی فوٹو

ثروت گیلانی کا کردار بھی واسع پٹھان کی اہلیہ کے روپ میں مختصر تھا مگر وہ جب بھی سامنے آئیں، انہوں نے اسکرین کو روشن ہی کیا۔ ان کے بولنے کا انداز اور شخصیت کا انداز زبردست رہا اور انہوں نے مثالی اداکاری کی ہے۔

شوخ و چنچل سوہائے علی ابڑو شیری کی بگڑی ہوئی امیر منگیتر کے روپ میں خوب مستی میں نظر آئیں. خود پرستی اور آسائشات کی عادی لڑکی کے روپ میں انہوں نے نئی نئی امیر ہونے والی شہزادی کے کردار کی نقل بہترین انداز سے کی۔ ان کے ہیش ٹیگز اور ان کا 'MA MA' ان کے کردار کو یادگار بناتا ہے مگر فلم میں معاشرے کے اعلیٰ طبقے میں شادیوں کے حوالے سے موجود دیوانگی کو صرف سطحی طور پر موضوع بنایا گیا ہے. اس پہلو کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔

ہیروئین کے کردار میں مہوش حیات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ فلم میں کسی اور دنیا سے آئی ہیں، دیگر اداکار جو ڈانس کے دوران ناتجربہ کار نظر آتے ہیں وہیں مہوش زیادہ کوشش کے بغیر ہی بہترین رہیں. ان کا کردار کچھ زیادہ نہیں تھا مگر وہ اچھی نظر آئیں اور ان کا اعتماد بھی صاف نظر آیا۔

بدقسمتی سے مہوش حیات بھی ہمایوں سعید کو ڈانس فلور پر اچھا دکھانے میں ناکام رہیں۔

وہ ایک برے ڈانسر ثابت ہوئے اور اس چیز نے ان کی بہترین اداکاری کو گھٹا دیا۔ سنجیدہ اداکاری کے لیے مشہور ہمایوں سعید نے ثابت کیا کہ وہ کامیڈی کے حوالے سے غیر متوقع صلاحیت رکھتے ہیں۔

عائشہ خان اور عظمیٰ خان نے اپنے مختصر کرداروں میں اچھا کام کیا مگر یہ مرد اداکار تھے جنہوں نے سب کو چندھیا کر رکھ دیا. واسع چوہدری، احمد علی بٹ اور حمزہ علی عباسی کے حصے میں فلم کے پہلے نصف کے دوران متعدد مزاحیہ مناظر آئے اور ان تینوں نے انہیں اچھے طریقے سے نبھایا. دوسرے نصف میں انہیں کم موقع ملا مگر پھر بھی کچھ مناظر میں وہ چھائے رہے۔

حمزہ علی عباسی فلم کے ایک سین میں — پبلسٹی فوٹو
حمزہ علی عباسی فلم کے ایک سین میں — پبلسٹی فوٹو

حمزہ علی عباسی بلاشبہ ان تینوں سے بڑے اسٹار ہیں مگر انہوں نے اپنی کامیڈی ٹائمنگ سے مایوس کیا۔ فلم کے حوالے سے ان کے متنازع بیانات بھی سامنے آئے اور انہوں نے فلم سے دوری اختیار کی جس کا جواز آئٹم سانگز کو بنایا گیا۔ ایک منظر میں وہ سوئمنگ پول سے مختصر لباس پہنی ایک لڑکی کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ مرکزی کرداروں میں موجود کوئی اور فرد بھی یہ منظر فلما سکتا تھا۔

فلم آئٹم سانگز کے بغیر زیادہ بہتر ہوتی

جے پی این اے کے آئٹم سانگز درحقیقت بیشتر بولی وڈ فلموں جیسے ہی ہیں مگر متعدد افراد نے انہیں دوہرے معیار کے طور پر دیکھا۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان آئٹم سانگز نے فلم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا کیونکہ وہ بہت ہی برے تھے۔

فلم کے وہ دونوں گانے اچھے رہے جہاں کاسٹ نے ڈانس سے زیادہ ریپنگ پر زیادہ توجہ دی۔ فلم کے بیشتر گانے زیادہ اچھے فلمائے نہیں گئے اور ان کی کوریوگرافی بھی کافی خراب تھی۔ مہوش حیات کے گانے میں پیچھے موجود ڈانسرز کے مختصر پولیس کاسٹیوم تکلیف دہ تھے۔ بولی وڈ سے متاثر کھل جائے بوتل ایک پارٹی سانگ کی بیمار نقل لگی مگر شادی کے گانے حقیقی معنوں میں بھیانک ثابت ہوئے۔ کسی حقیقی مہندی میں جاکر آپ فلم میں دکھائے جانے والے ڈانس سے زیادہ بہتر رقص دیکھ سکتے ہیں۔ بدترین امر یہ رہا کہ دونوں گانے وحشیانہ انداز میں برانڈ کی تشہیر کرتے نظر آئے جس نے فلم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔

یہ واضح ہے کہ پروڈیوسرز کو غیر ملکی لوکیشنز فلمانے کے لیے اسپانسر شپ کی ضرورت ہے مگر اس تعلق کو نازک ہونا چاہیے۔

فلم میں برانڈز کو کافی نمایاں انداز میں دکھایا جاتا رہا. ایک بینک، ایک فاسٹ فوڈ چین اور ایک ہائی اسٹریٹ چین سب نمایاں تھے۔ یہ دخل اندازی ہی کم نہ تھی مگر چائے اور فیئرنس کریم کے گانوں نے مزید ثابت کیا کہ اسپانسر کس طرح فلم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جوانی پھر نہیں آنی ان کے بغیر زیادہ بہتر فلم ہوتی۔

مگر فلم میں برانڈ کی شراکت دار مکمل طور پر بھی ناکام نہیں، فلم میں دکھایا جانے والا طرز زندگی متعدد چوٹی کے فیشن ڈیزائنرز پر منحصر تھا جنہوں نے اداکاروں کے وارڈروب کے لیے ملبوسات فراہم کیے۔ دیپک پروانی، ثانیہ مسکاتیہ اور ثناء سفیناز سب نے اپنے ملبوسات برانڈ نمایاں کیے بغیر فراہم کیے اور اس کے نتیجے میں کاسٹ اسٹائلش نظر آئی۔

اسی طرح لوکیشنز کا انتخاب بھی زبردست کیا گیا اور وہاں عکس بندی بھی خوبصورت رہی، جیسے کہ ایک پرواز کا منظر ہے. حالیہ برسوں میں پروڈکشن کے معیار میں بہتری نے مقامی فلمسازوں کو زیادہ محنت پر مجبور کیا ہے، پاکستانی سینما تاحال اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف ہے مگر اسے بولی وڈ کے سائے سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔

الغرض اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود جوانی پھر نہیں آنی مکمل طور پر ایک تفریحی فلم ہے۔ جس کے مزاح، مذاق اور حاضر جوابی دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کروائے رکھتی ہے. یہ فلم باآسانی لوگوں کو خوش کرسکتی ہے اور یقینآ آپ کا سنیما ٹکٹ ضائع نہیں ہوگا.

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (4) بند ہیں

راشد نذیر علی Sep 24, 2015 09:31pm
آج یہ فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بلا شک یہ ایک خاصی بہتر فلم ہے۔ ایک کامیڈی فلم ہونے کے باوجود اسکے اسکرپٹ میں کوئی بیہودہ جملہ نہیں تھا جس پر اسکے پیشکار اور لکھاری داد کے مستحق ہیں۔
Shani jutt Sep 26, 2015 07:35am
ya film a6i ha or is k songs b thk hain . bs thori mehnat ki zarort ha. great
Shiza Aman Sep 26, 2015 05:36pm
mujy to ye film kahen sy b pakistani nai lagti...... comedy tak to thek hai but heroins ki dressing kafi behooda the..... or as a pakistani film es main pakistan ka koi b culture nai dekhaya gya.....
صوفیہ کاشف Sep 27, 2015 05:08pm
یہ بات آجکل میں ریلیز ہونے والی بہت ساری فلموں میں مشترک ہے کہ وہ انڈین انداز کے ساے تلے نظر آ رہی ہیں.بنانے والے انڈینز جیسی فلم بنانے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں بجاے اسکے کہ اپنا انداز بنایا جائے.