کراچی: یہ دوسرا موقع تھا کہ عظمیٰ حق اور ان کے شوہر نوید احمد عثمانی ایک اندوہناک حادثے سے بچے۔ پہلی مرتبہ اس وقت جب مکہ مکرمہ میں آندھی چلنے کے باعث کرین گری اور دوسری مرتبہ منیٰ میں مچنے والی بھگدڑ میں۔

کراچی کے علاقے سخی حسن کے رہائشی نوید احمد عثمانی نے مکہ مکرمہ میں اپنے ہوٹل سے ڈان سے خصوصٰ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ علی الصبح ہی شیطان کو کنکریاں مار چکے تھے۔

'ہم منیٰ صبح ساڑھے سات بجے پہنچے اور یہ اسی وقت بھرا ہوا تھا'، اس دوران ان کے عقب سے مسلسل فون بجنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہم منیٰ، عرفات، مزدلفہ، رمی اور فجر کے دوران اپنی عبادات ختم کرکے واپس جانے کیلئے تیار ہوئے تو سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور وہاں کھڑے ہونے کیلئے کوئی جگہ نہ تھی، لہٰذا ہم فوری طور پر مکہ میں واقع اپنے ہوٹل کیلئے روانہ ہو گئے۔

جیسے ہی یہ جوڑا ہوٹل پہنچا، انہیں اپنے موبائل فون پر میسیجز اور کال آنا شروع ہو گئیں۔ پہلی کال ان کے انکل عبدالحئی کی تھی جو نارتھ ناظم آباد میں رہتے ہیں جنہوں نے فوراً ان کی خیریت دریافت کی۔

57 سالہ عبدالحئی اس وقت چینل بدل رہے تھے جب ان کی نظر منیٰ میں مچنے والی بھگدڑ کی خبر پر نظر پڑی۔

جیسے ہی ہلاکتوں کی تعداد ایک گھنٹے کے اندر سو سے بڑھ کر 200 تک پہنچی، تو انہوں نے فوراً نوید عثمانی کا نمبر ملانا شروع کردیا۔

عبدالحئی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم عام طور پر ایمرجنسی نمبروں کا ریکارڈ نہیں رکھتے حالانکہ ہمیں رکھنا چاہیے۔ اس صورتحال نمیں ہم نے ان دونوں کو باور کرایا تھا کہ ہمیں اپنی جائے وقوع کے بارے میں بتاتے رہیں کیونکہ یہ ایک ماہ کے اندر پیش آنے والا دوسرا واقعہ ہے۔

دوسری جانب نوید عثمانی نے خود کو انتہائی خوش قسمت گردانتے ہوئے بتایا کہ ہم ان 23 پاکستانی افراد کے گروپ میں شامل تھے جو منیٰ کیلئے جلد روانہ ہو گیا تھا، میں بھگدڑ میں ہونے والی ہلاکتوں کا سن کر دنگ رہ گیا۔ یہ گراؤنڈ فلور پر مکتب 93 کے قریب رونما ہوا کیونکہ عام طور پر لوگ انتظار نہیں کرتے بلکہ اس کے بجائے یہ دھکے دے کر آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ گم ہو جاتے ہیں یا پھر حالات زیادہ سنگین ہونے کی صورت میں بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ اس واقعے سے یہاں کیے گئے انتظامات کا کافی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ایسی صورت میں موبائل نیٹ ورک مستقل مصروف رہتے ہیں، اہل خانہ انٹرنیٹ پر دستیاب سہولیات جیسے واٹس ایپ، وائبر اور ٹینگو کے ذریعے اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ پیاروں کا حال احوال معلوم کر سکیں۔

گارڈن کے علاقے کے رہائشی ایک اور پاکستانی محمد نیاز نے بتایا کہ اپنے دوست کی تلاش میں تھے جس سے ان کی دوستی گزشتہ مرتبہ حج پر ہوئی تھی۔ اپنے دوست کی کڑی آزمائش کا احوال بتاتے ہوئے انہوں کہا کہ شیخ یونس منیٰ کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد کے امام ہیں جو بھگدڑ میں گم ہو جانےوالے اپنے اہلخانہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

ڈان سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے برمی نژاد یونس شیخ نے بتایا کہ جس وقت بھگدڑ مچی، میری اور دو بیٹیاں جمرات کے قریب کھڑی تھیں۔ یہاں مجموعہ جمع ہوتا رہا اور میں ان کے نام کی صدائیں لگاتا رہا جبکہ ساتھ ساتھ میں ہسپتال جانے کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔ لیکن بالآخر میری بیوی نے مجھے آواز دی اور میں نے انہیں ایک کونے میں کھڑا پایا، وہ لوگوں سے خود کو اور بچیوں کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی، انہوں نے اپنے ہاتھ تھامےرکھے اور آخر کار سرنگ تک پہنچ گئے جس کے بعد ہم نے کیمپ میں قیام کرنے کے بجائے فوراً مکہ میں اپنے ہوٹل کی راہ لی۔

منیٰ کے کیمپ کی ایمرجنسی سروسز میں کام کرنے والے ایک آفیشل عبدالعزیز نے بتایا کہ اب تک سات پاکستانیوں کو بچایا جا چیا ہے، پاکستانی سفارتخانے میں موجود ہمارے افسران جائے وقوعہ پر موجود ہیں اور ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ بھگدڑ میں کتنے پاکستانی ہلاک ہوئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جول لوگ منیٰ کے کیمپ میں موجود اپنے عزیزواقارب کے بارے میں جاننا چاہتے ہوں، وہ اس ٹیلی فون نمبر 00966125277560 پر رابطہ کریں یا پھر ان ہیلپ لائن نمبرز پر ملائیں 00966125277537 اور 00966125496000۔

تبصرے (0) بند ہیں