افغان طالبان دو دھڑوں میں تقسیم

05 نومبر 2015
ملا رسول اخوند۔ — اے ایف پی
ملا رسول اخوند۔ — اے ایف پی

افغانستان میں ملا عمر کے انتقال کے بعد طالبان گروپ پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔

رواں ہفتے جنوب مغربی افغان صوبے فرح میں علیحدہ ہونے والے دھڑے نے ایک بڑے جرگے کے بعد ملا رسول اخوند کو اپنا نیا ’سپریم کمانڈر‘ مقرر کیا، جس کے بعد ممکنہ امن مذاکرات کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔

ابھی تک واضح نہیں کہ آیا نیا دھڑا بڑی حمایت سمیٹ سکے گا یا نہیں ۔تاہم، نئے دھڑے کے سامنے آنے سے افغان طالبان کے درمیان دراڑیں ابھر کر سامنے آ گئیں۔

ملا رسول نے درجنوں جنگجوؤں کے جرگے میں اعلان کیا کہ ’منصور ہمارے امیر المومنین نہیں۔ہم انہیں اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرتے‘۔

ملا عمر کے قریبی ساتھی اور طالبان دور میں نمروز صوبے کے گورنر رہنے والے ملا رسول کے مطابق ’ منصور شریعت کے مطابق قانون طریقے سے منتخب نہیں ہوئے تھے‘۔

ملا عمر کی موت کو دو سال تک چھپائے رکھنے اورعید پر ان کے نام سے جاری ہونے والے بیانات پر طالبان گروپ میں ناراضی پائی جاتی تھی۔

اس کے علاوہ مبینہ طور پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والےملا منصور کو منتخب کرنے میں جلد بازی پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے گئے تھے۔

طالبان ذرائع کے مطابق، ملا منصور کے مخالفین میں سابق امیر کے بیٹے اور بھائی بھی شامل تھے، جنھوں نے بعد ازاں منصور کے ساتھ وفاداری کا عہد کر لیا۔

نیا دھڑا قائم ہونے سے ملا منصور کو بظاہر کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ حالیہ کچھ عرصے میں عسکری کامیابیاں حاصل کرنےسے ملا منصور کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔

تاہم، مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ دھڑا بننے سے امن مذاکرات پر زد آ سکتے ہیں۔افغان تجزیہ نگار اور طالبان دور میں وزارت خارجہ کے سابق عہدے دار وحید نے کہا ’نیا دھڑا مزید کٹر جنگجوؤں کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے، جس سے مستقبل میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں پیچیدگی آئے گی‘۔

ابھی تک طالبان نے نئے دھڑے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں