نیشنل ایکشن پلان: 'صرف وزارت داخلہ ذمہ دار نہیں'
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت ملک کا واحد ریاستی ادارہ نہیں جو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کروانے کا ذمہ دار ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے چوہدری نثار نے نیشنل ایکشن پلان کا ترجمان بنائے جانے کی روداد سنائی اور کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان کے قیام کے بعد وزیراعظم نے مجھے کہا کہ میں اس کے رابطہ کار کے طور پر چارج قبول کرلوں لیکن میں نے اپنی وزارت کی مصروفیات کی وجہ سے اسے قبول کرنے کی مخالفت کی تھی، تاہم وزیراعظم کے اصرار پر میں نے اس کا چارج قبول کیا‘۔
نیشنل ایکشن پلان کے عملدرآمد میں خراب کارکردگی کے حوالے سے اپوزیشن کی تنقید کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’وزارت داخلہ کے کردار کو نیشنل ایکشن پلان سے نہ ملایا جائے کیونکہ دونوں ادارے مختلف ہیں۔ ترجمان کی حیثیت سے میں آپ کو پلان کے حوالے سے بریفنگ دینے سے انکار نہیں کررہا تاہم مجھے اس کے لیے وقت درکار ہے‘۔
مزید پڑھیں: ’دہشت گردی کے خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ چاروں صوبوں کی انتظامیہ اور اہم وفاقی وزارتیں نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہیں اور رابطہ کار کی حیثیت سے وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران چوہدری نثار کی اس وضاحت پر اپوزیشن اراکین مطمئن نہیں ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی داخلی سیکیورٹی کے محافظ ہونے کے ناطے ’وزیر داخلہ خود کو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سے کیسے بری الزما قرار دے سکتے ہیں‘۔
پیپلز پارٹی (پی پی) کے سید نوید قمر نے کہا کہ جیسا کہ داخلی سیکیورٹی کے حوالے سے ہر فائل اُن کی ٹیبل سے ہو کر گزرتی ہے، وہ (چوہدری نثار) نیشنل ایکشن پلان پر اٹھنے والے سوالات سے معذرت نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان: 'مقاصد کے حصول میں ناکامی‘
سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ ’اگر چوہدری نثار برا نہ منائیں، میں ان کی اس وضاحت سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ وزارت داخلہ ہر صورت میں نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات کی ذمہ دار ہے‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاؤس میں چوہدری نثار کی جانب سے وزارت داخلہ کی کارکردگی کے حوالے سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ان کی وزارت آپریشن ضرب عضب، دہشت گردوں اور انتہا پسندی سے جنگ کا ایک لازمی حصہ ہے اور نیکٹا اور این سی ایم سی کے ذریعے نیشنل ایکشن پلان کے عمل درآمد کے لیے داخلی سیکیورٹی اور قانون کے نفاذ کی کوششیں کررہی ہے‘۔
نیشنل ایکشن پلان کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ ’نیشنل ایکشن پلان اور کراچی آپریشن کے ضروری آپریشنل اور اسٹریٹجک پہلوؤں کو بہتر بنانے اور اضافے کے لیے وزارت نے اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے ‘۔
یہ بھی پڑھیں: 'قومی ایکشن پلان دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے میں موثر'
ڈاکٹر مزاری نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی اور جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے قیام کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’میں نے اس حوالے سے کوئی کام ہوتے ہوئے نہیں دیکھا‘۔
سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ کا کہنا تھا ’میں یہ نہیں کہتا کہ نیکٹا کو امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کی طرز پر تعمیر کیا جائے، لیکن اسے کم سے کم اُس مقام پر تو پہنچنا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے معمول کے مقدمات کی تفتیش کرسکے‘۔
تاہم اپوزیشن اراکین نے یہ تسلیم کیا کہ وزارت داخلہ کی کارکردگی حالیہ دنوں میں بہتر رہی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جب تک مذہبی ادارے مرکزی دھارے میں نہ آجائیں، جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ مکمل طور پر فعال نہ ہوجائے اور کالعدم تنظیموں پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کرلیا جائے اُس وقت تک وزارت کی کارکردگی کو مختلف فورمز پر چیلنج کیا جاتا رہے گا۔
یہ خبر 18 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.










لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں