لاہور: پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے لاہوری پولیس اسٹیشن میں کانسٹیبل عنبرین اختر گزشتہ ایک ماہ سے بحیثیت نائب محرر تعینات ہیں، وہ ایک پرانے کمرے میں بیٹھتی ہیں جو بوسیدہ ہے اور اس کا رنگ وروغن اکھڑ چکا ہے۔

یہاں ان کے لیے کام کرنے کا مناسب ماحول ہے، ان کے اعلیٰ افسران اور دیگر ساتھی اُن سے آزادانہ طور پر بات چیت کرتے ہیں، جبکہ ان سے کچھ 'دفتری مذاق' بھی کیا جاتا ہے۔

عنبرین کی جب سے یہاں تعیناتی ہوئی ہے وہ باآسانی اس پولیس اسٹیشن میں ایڈجسٹ ہوگئی ہیں اور ان کو یہاں اپنے ساتھیوں کی جانب سے کسی روایتی نامناسب رویئے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اس پولیس اسٹیشن کی واحد خاتون اہلکار ہونے کی وجہ سے ابتداء میں اُن کو کچھ مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑا تھا۔

عنبرین اختر کا کہنا تھا کہ شروع میں یہاں خواتین کے لیے علیحدہ بیت الخلاء نہیں تھا۔

اب اس پولیس اسٹیشن میں ایک ٹوائلٹ موجود ہے جس کو تالہ لگا ہوتا ہے اور اس کی چابی ان کے پاس ہوتی ہے۔

عنبرین اختر کا کہنا ہے کہ پولیس اسٹیشن کی تباہ حال عمارت کے علاوہ یہاں اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی کام کرنے کی جگہ پر ہر طرح کے مزاج کے لوگ موجود ہوتے ہیں، یہ مردوں کا اکثریتی شعبہ ہے، کچھ مرد ہوتے ہیں جو اچھے کردار کے نہیں ہوتے اور وہ کسی بھی نوجوان خاتون سے بلاوجہ بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے ہیں، دوسری جانب ایسے مرد بھی موجود ہیں جو خواتین کی قابلیت کو تسلیم کرکے ان کی فورس میں آمد کو قبول کرتے ہیں اور ان سے دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔

البتہ لاہوری پولیس اسٹیشن کے مقابلے میں ان کی ایک اور ساتھی اہلکار کو شاہدرہ پولیس اسٹیشن میں دوستانہ ماحول نہیں ملا۔

عنبرین اختر نے بتایا کہ ان کی دوست کو تعصب کا سامنا کرنا پڑا جس پر انہوں نے تبادلے کی بھی درخواست کی۔

عنبرین کے ساتھ اسی ٹیبل پر بیٹھنے والے ہیڈ محرر رفاقت نے بھی پولیس اسٹیشن میں خواتین اہلکاروں کی موجودگی پر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر پولیس اسٹیشن میں کم از کم 3 خواتین اہلکار ہونی چاہئیں.

رفاقت نے بتایا کہ جب ہم کسی جگہ چھاپہ مارنے جاتے ہیں اور وہاں خواتین موجود ہوں تو ہمیں کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ پولیس لائنز سے خواتین اہلکار آئیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب اگر کسی جگہ ریڈ کرنا ہو تو ہم عنبرین اختر کو ساتھ لے جا سکتے ہیں، ایک ورکر کی حیثیت سے ان کی ٹائمننگز بہترین ہیں جبکہ دوسری جانب کچھ غیر قانونی بھی نہیں ہوگا۔

عنبرین اختر کا کہنا تھا کہ انہوں نے سنا ہے کہ یہاں پہلے بھی کچھ خواتین افسر تعینات ہوئیں جو فریش گریجویٹس تھیں لیکن انہوں نے یہ تاثر قائم کیا کہ وہ کام کے حوالے سے کمزور ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ بہت زیادہ روتی بھی تھیں، میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ خواتین خود پروفیشنلزم دکھائیں، ان میں بہت ساری اب بھی میچور نہیں ہیں اور اس طرح کے کام کے لیے موزوں نہیں۔

اس موقع پر رفاقت نے ایک بار پھر کہا کہ وہ خواتین جو پولیس اسٹیشن میں تعینات ہوتی ہیں وہ عملی کاموں کی زیادہ ماہر ہوتی ہیں اور پولیس لائنز سے آنے والی اہلکاروں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔

عنبرین کا کہنا تھا کہ مگر یہاں مسئلہ ہے کہ لوگ بعض اوقات خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، یہاں سے باہر وہ دیکھتے ہیں ایک خاتون اکیلی ایک پولیس اسٹیشن جا رہی ہے جو کہ مرد اہلکاروں سے بھرا ہوا ہے۔

عنبرین اختر نے حالیہ دنوں میں ہی انتہائی سخت ڈیوٹیز ادا کی ہیں جن میں داتا دربار پر عرس، انتخابات میں پولنگ اسٹیشن میں تعیناتی اور چہلم کے جلوس شامل ہیں۔

وہ خواتین محرر کے اس پہلے بیچ میں شامل تھیں جنہوں نے چنگ پولیس اسٹیشن سے تربیت مکمل کی تھی۔

عنبرین اختر جب پولیس اسٹیشن آتی ہیں تو اپنے ذاتی کام باہر ہی چھوڑ آتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ سے خوش قسمت ہوں جن کو والدین کی سپورٹ ملی، وہ مجھ سے ملنے پولیس اسٹیشن آتے ہیں اور واپسی پر متاثر ہو کر جاتے ہیں، میرے والد کبھی یقین نہیں کر سکتے کہ میں ان کی وہی چھوٹی سی بیٹی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب میری اپنی ایک چھوٹی سی 2 سال کی لڑکی ہے، جو میری زندگی کا مقصد ہے کہ میں اس کا خیال رکھوں، میری شروع سے ہی پولیس فورس جوائن کرنے کی خواہش تھی۔

یہ خبر 22 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

تبصرے (0) بند ہیں