• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

سینیٹرز کا طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ

شائع January 12, 2016

اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر موجود پابندی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مکمل ہاؤس پر مشتمل کمیٹی کو اس معاملے میں سفارشات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

نئے سیشن کے پہلے روز ہاؤس میں 5 قراردادیں منظور کی گئیں اور ایوان میں آئین کے آرٹیکل 182 میں ترمیم کے حوالے سے بحث ہوئی، جو چیف جسٹس آف پاکستان کو ایڈہاک ججوں کو مقرر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر بابر اعوان کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل کو حکومت کی ابتدائی مخالفت کے بعد چیئرمین نے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔

ایوان کے دونوں جانب کے سینیٹرز نے جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر موجود پابندی پر اپنے تحفظات کا اظہار اور اس کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا، جس پر سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اپنا فیصلہ دیا۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد پر ایوان میں بحث کا آغاز کیا گیا، جس میں انھوں نے ’تعلیمی اداروں اور خاص طور پر کالجز اور یونیورسٹیز میں طلبہ یونینز کی بحالی کی ضرورت‘ زور دیا۔

چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ آمرانہ دور حکومت میں ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آڈر کے تحت طلبہ یونینز پر لگائی جانے والی پابندی آئین کی خلاف ورزی ہے، جو ہر شہری کو ایسوسی ایشن یا یونین بنانے کا حق دیتا ہے۔

انھوں ںے کہا کہ جنرل ضیاء الحق نے طلبہ یونینز پر اُس وقت پابندی لگائی تھی جب یہ دیکھا کہ طلبہ آمرانہ حکومت کے خلاف اتحاد بنانے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طلبہ تحریکوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے اہم کردار داد کیا ہے اور ایوب خان جیسے آمر کو جھکنے پر مجبور کردیا تھا۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹرز نے طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے مستقبل کے سیاست دانوں کی ’نرسری‘ قرار دیا۔

روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ طلبہ یونیز کی غیر موجود گی میں ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے۔

پی پی پی کے سینیٹر سعید غنی کا کہنا تھا کہ طلبہ اور تاجروں کی یونینز اور بلدیاتی حکومتی ادارے مستقبل کے رہنماؤں کی گرومنگ کے لیے ضروری ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ انتہائی حیران کن امر ہے کہ فوجی جرنیلوں کو تو سیاست میں آنے کی اجازت ہے لیکن طلبہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے، جن کو ان کے بنیادی آئینی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ طلبہ یونینز نے ہمیشہ مارشل لاء کے خلاف تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے اور جمہوری دور میں اس پر پابندی جاری رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی کے لیے طلبہ یونینز کی بحالی ناگزیر ہے۔

(ن) لیگ کے ہی مشاہدہ اللہ خان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ طلبہ کی سیاست کو اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتی ہے اور وہ ایوب خان کے خلاف طلبہ کی تحریک کی کامیابی کے بعد طلبہ یونیز پر پابندی لگانے میں کامیاب ہوئی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید نے ایوان کی توجہ کچھ طلبہ یوینیز کے رہنماؤں کی غیر قانونی سرگرمیوں کی جانب دلوائی، جو ان کے مطابق کراچی میں مافیا کا کردار ادا کررہے ہیں اور گاڑی کی چوری سے لے کر بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔

(ن) لیگ کے عبدالقیوم نے قرار داد کی حمایت کی ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ طلبہ رہنماؤں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔

ایوان میں منظور کی جانے والی قرار دادیں

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد ’قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے آپریشنز کی سہولیات اور قومی سلامتی میں اس کے کردار کے لیے دو ارب کی اضافی ضرورت‘ کی منظوری میں حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ادھر سینیٹ نے متفقہ طور پر ایم کیو ایم کے محمد علی سیف کی پیش کی گی قرار داد کو مںظور کیا، جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ ’پروٹوکول کی مشکلات سے لوگوں کو بچانے کے لیے ملک میں وی آئی پی پروٹوکول پر فوری پابندی عائد کی جائے‘۔

ایم کیو ایم سینیٹر طاہر مشہدی کی جانب سے پیش کی جانے والی 2 قرار دوں کو بھی ایوان میں مںظوری ملی، جن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’پاکستانی مصنوعات کے لیے بیرون ملک نئی مارکیٹوں کی تلاش کی جائے‘ اور ’پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں‘۔

یہ خبر 12 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025