انگلش کے بغیر آپ مستحق نہیں

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2016
غربت کی لکیر کے نیچے گزارنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے لیے ہمارے پاس مساوی ہمدردی نہیں ہے.
غربت کی لکیر کے نیچے گزارنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے لیے ہمارے پاس مساوی ہمدردی نہیں ہے.

یوں لگتا ہے کہ ہمارے دکھ درد اور ہماری کہانیاں تب تک کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں، جب تک ہم یہ سب کچھ رواں انگریزی میں دنیا کو نہ سنائیں.

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک بے گھر آدمی رواں انگریزی زبان میں ملازمت کے لیے التجا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والے دھوکے، اور اس کی بد قسمتی اور نقصان کی داستان دل خراش ہے۔ اداکار احسن خان کی وجہ سے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی اور جلد ہی اس شخص کو نوکری بھی مل گئی۔

اس کی کہانی کئی دیگر لوگوں کی کہانیوں کی طرح ہی ہے، لیکن وہ خوش نصیب رہا کیونکہ اس نے اپنی کہانی اس زبان میں بیان کی جسے ملک کی اشرافیہ نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے۔

پنجابی، سندھی، پشتو، اردو اور بلوچی زبان کے ناقابل فہم شور میں نہ جانے کتنی ایسی کہانیاں سنے جانے کی طلبگار ہیں۔

غربت کی لکیر کے نیچے گزارنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے لیے ہمارے پاس مساوی ہمدردی نہیں ہے، اسی لیے ہم اپنی خیر خواہی کے لیے ترجیح ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ہمیں خود جیسے محسوس ہوتے ہیں، یعنی ایک ‘نارمل انسان’ جیسے۔

یورپ کے گرد گھومنے والی دنیا میں ایسے لوگوں کے لیے بہت جگہ ہے جو اپنی اصل شناخت کو ایک طرف رکھ کر کسی اوسط مغربی شخص سے مطابقت رکھنے والے انداز کو اپناتے ہیں.

انتہائی پیچیدہ لوک دھن بجانے والے میراثی یا پنجابی گیت گنگنانے والے ایک غریب مزدور کو اتنی بین الاقوامی شہرت حاصل نہیں ہوسکتی جتنی ان دو پاکستانی بہنوں کو ملی جنہوں نے کیمرا پر جسٹن بیبر کا گانا گایا تھا۔ میں ثانیہ اور مقدس کا ذکر کر رہا ہوں جنہیں 2015 کی ابتدا میں ‘بے بی’ گانا گانے پر عالمی میڈیا میں کافی کوریج دی گئی تھی۔

ایحام احمد کی مثال لیجیے، جو کہ شام کا پیانو نواز ہے اور جسے شام اور فلسطین کے جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی مناسبت سے بجائے گئے پیانو نے دنیا بھر میں پہچان دلائی۔ کیا اسے یہ نام اور شہرت شام کا روایتی ساز 'قانون' بجانے سے ملتی، جس کی آواز شاید مغربی میڈیا کو لبھا نہ پاتی؟

میرا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں کہ پاکستانی بہنیں اور شامی پیانو نواز شہرت کے حقدار نہیں؛ اس میں کوئی شک نہیں یہ سب اپنے فن میں ماہر ہیں۔ نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ انگریزی بولنے والے بے گھر آدمی کو اتنی توجہ نہیں ملنی چاہیے۔ مگر یہ لوگ ان لوگوں سے ضرور مشابہت رکھتے ہیں جن میں ان کے لیے کچھ کرنے کی قوت موجود ہے۔

ان لوگوں میں عالمی برادری اور اس کے ساتھ ان مقامی لوگوں کے لیے زیادہ کشش ہے جو جدت، طبقے اور بہتر تعلیم کے ثبوت کے طور پر ہر طرح کی مغربی روایات اپنانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

کسی بھی میڈیا ادارے نے اس بے گھر آدمی کا نام جاننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی، بلکہ اسے ‘دریافت’ کرنے والے اداکار ماڈل کا نام احسن خان کا نام ہر جگہ نمایاں رہا۔

یہی کہانی اگر انہیں پنجابی میں سنائی جاتی تو شاید وہ متاثر نہ ہوتے، اور ان کی کہانی ہمارے ملک میں موجود لاتعداد فقیروں جیسی ہی محسوس ہوتی جو ممکنہ طور پر ہماری ہمدردی کے کم مستحق ہیں۔

ایک اوسط پاکستانی روز اپنے گھر جاتے ہوئے کتنے بے گھر لوگوں کو دھتکارتا ہے اور پھر لیپ ٹاپ پر انگریزی بولنے والے ایک بے گھر آدمی کی دکھ بھری کہانی سنتا ہے؟

اس بے نام شخص کا تعلق بھی اسی پسماندہ برادری سے ہے جسے اشرافیہ اور متوسط طبقہ سست، نشہ کرنے والے اور گداگر مافیا کہتے ہیں۔

میں شکایت نہیں کر رہا مگر ہمدردی کا یہ طوفان کہاں سے آیا؟

کیونکہ ذہن کو اس خیال سے جھٹکا لگا کہ ایک شخص جو اعلیٰ طبقے کے پاکستانیوں کا اسٹیٹس سمبل سمجھی جانے والی انگریزی زبان بول رہا ہے، اسے نچلے طبقے کے میلے لوگوں کے درمیان نہیں رہنا چاہیے۔

ہم بھلے ہی اس بات پر متفق ہوں کہ کسی کو بھی بے گھر ہونے کی ذلت نہ اٹھانی پڑے لیکن چند مخصوص لوگوں کو زیادہ کا حقدار سمجھتے ہیں۔

وہ چند مخصوص لوگ ہم ہیں اور ہم جیسے لوگ ہیں۔

تبصرے (10) بند ہیں

شاہد اے خان Jan 12, 2016 06:22pm
انگریزی اشرافیہ کی زبان نہیں، یہ اقتصادیات کی زبان ہے، یہ معاش کی زبان ہے، پاکستان میں بھی اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ نے اس زبان کو اسی لئے اپنایا اور عوام کو اس سے محروم کیا ہے۔ دنیا عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس گاؤں کی زبان انگریزی ہے۔ اس لئے انگریزی سیکھنا اور جاننا جرمن باشندے کے لئے جس قدر اہم ہے، اتنا ہی چین کے باسی کے لئے اہمیت رکھتاہے۔ ہم پاکستانی بھی عالمی گاؤں کے باشندے بن چکے ہیں اس گاؤں میں ہماری بقا بھی انگریزی کی بہتر استعداد پر منحصر ہے۔۔ مغلوں کے ہندوستان میں سرکار اور اشرافیہ کی زبان فارسی تھی۔۔ بہتر حصول معاش کار سرکار سے جڑا تھا اور فارسی سیکھنا اتنا ہی ضروری اور اہم تھا جتنا آج انگریزی جاننا۔۔ برصغیر کے انگریز کی عملداری میں آنے کے ساتھ ہی فارسی لاوارث ہوگئی۔ فارسی کے جید استاد جاہل مطلق ٹہرے اور انگریزی کار سرکار کے لئے انہیں اس اردو ہندی اور ہندوستانی زبان کو اپنانا پرا جسے وہ گری پڑی زبان قرار دیتے تھے۔۔ اور پھر فارسی پڑھے لکھے شرفائے ہند واقعی تیل بیچنے لگے۔۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 12, 2016 06:58pm
انسانی نفسیات ہے کہ وہ دوسروں کی نظر میں اپنا تاثر بھرپور پیش کرنا چاہتا ہے۔ انگریزی میں کہانی بیان کرنے کی وجہ جہاں اپنا تاثر جمانا تھا وہیں پر ثبوت بھی بہم پہنچانا تھا کہ واقعی ہی پڑھا لکھا بندہ ہے۔ غریب کو جو کوریج ملی وہ صرف احسن خان کی وجہ سے ملی۔ اگر یہی کہانی مجھ جیسے ماڑے بندے نے سوشل میڈیا پر وائرل کی ہوتی تو کوئی بھی اسے قابل توجہ نہ گردانتا۔ اس لیے یہ کہنا کافی دشوار ہے کہ انگریزی مارنے والوں کو حق۔نوکری۔توجہ۔کوریج آسانی سے مل جاتی ہے۔ ہمارے رائٹرز میں ایک قدر بہت عام ہے کہ وہ انگریزی کو اس وجہ سے اہمیت دیتے ہیں کہ ان کی آواز بین الاقوامی میڈیا تک پہنچ جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں وہ پاکستانی کلچر کی نہ چاہتے ہوئے بھی نفی کر رہے ہوتے ہیں اور دوسروں کے موڈھوں پر چڑھ کر منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں جسے ڈنڈی مار کر جیتنا کہا جاتا ہے۔ انگریزی کے بعد اردو کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کو قصہ پارینہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ثقافتی انقلاب لانا آج اشد ضروری ہے !
Gul Hanif Jan 12, 2016 07:01pm
Very well said!
محمد نصیر عباسی Jan 12, 2016 07:47pm
فراز طلعت کے لکھے پر کئی پہلووں سے بات ھو سکتی ھے۔ طبقاتی نطام کےاپنے انداز ھیں۔ گلوبل ویلج یا ایک گاوں کی مانند سکڑتی چھ ارب سے زائد آبادی کی مجودہ دنیا مین ہر کوئی ذات کا ثبات چاہتا ھے۔ شناخت ایک بڑا مسلئہ ھے۔ باھم رابطے کا ذریعہ زبان ایک ہتھیار ھے اور خوب ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 12, 2016 08:46pm
@شاہد اے خان صاحب، دنیا عالمی گاؤں میں اگر تبدیل ہو گئی ہوتی تو پھر دنیا میں امن کیوں نہیں قائم ہو رہا ؟ ایران اور سعودیہ کی کشمکش دن بہ دن بڑھ رہی ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ویسے کے ویسے ہی ہیں جیسے کہ سرد جنگ کے دوران تھے، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات بھی ڈانواں ڈول ہیں، ترکی بھی آج دہشتگردی کے نشانے پر آ پہنچا ہے، ترکی اور روس کے میزائل کشمکش نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ یہ حالات ایک عالمی گاؤں میں پیدا نہیں ہونے چاہیے تھے کیونکہ عالمی گاؤں کا مطلب ہے سرحدیں محض خانہ پری کی حیثیت اختیار کر جائیں، ویزا پالیسیاں یا ختم کی جائیں یا نرم کر دی جائیں۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ گلوبل ویلیج ایک سیاسی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے اور جس کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں وہ عالمی دنیا کا تھرڈ ورلڈ میں دخل اندازی اس طریقے سے کرنا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ طالبان نام پر افغانستان پر چڑھائی، لادینیت کے نام پر روس پر چڑھائی ۔۔۔ یہ سب سیاسی کلابازیاں ہیں۔ انگریزی سیکھنا وقت کی ضرورت ہے کہ بندہ اپ ٹو ڈیٹ رہ سکے۔
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 12, 2016 11:02pm
واہ کیا عمدہ بات کی جناب شائید مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی یہ تحرہر ترجمانی کررہی ہے بلکل حقیقت بیان فرمائی آپ نے ۔میں اس بات سے قطعی متفق ہوں کہ زیر موضوع صاحب اگر یہی بات اردو ،سندھی، پنجابی، پشتو یا بلوچی میں بیان کرتے تو انہیں اتنی پذیرائی نہیں ملتی ۔ انگلش بہترین تلفظ کے ساتھ بولنا ایک اضافی قابلیت ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ احسن خان کو اس شخص کی انگلش نے ہی متاثر کیا تھا ورنہ ایسی داستانیں اپنی مقامی زبانوں میں ہر روز ہی پاکستان کی سڑکوں پر محو تماشہ بنی ہوتی ہیں جنہیں اکثر جھڑک دیا جاتا ہے کہ یہ کوئی ڈرامہ ہی کررہا ہوگا ۔
یاور امین Jan 13, 2016 03:14pm
کیا خوب بیاں کیا فراز طلعت صاحب ۔۔ صد فیصد متفق ہوں آپ کی بات سے چونکہ اس نے اپنی کہانی اس زبان میں بیان کی جسے ملک کی اشرافیہ نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے۔ تو وہ ہمدردی کا مستحق رہا ۔۔ ورنہ شاید عام سا گداگر ہی ہوتا۔۔۔
Sajjad Khalid Jan 13, 2016 06:07pm
آپ سے مکمل اتفاق ہے۔ سماج نے تمام طبقاتی علامتیں ازبر کر لی ہیں۔ کسی بھی علامت کی موجودگی ایک طبقے کی دم ہلانے کے لئے کافی ہے۔
شاہد اے خان Jan 15, 2016 06:38pm
جناب نجیب احمد سنگھیڑہ صاحب، عرض یہ ہے کہ آپ عالمی گاؤں یا گلوبل ولیج کا کچھ اور تصور رکھتے ہیں۔ اصل میں عالمی گاؤں کی اصطلاح انٹرنیٹ آنے کے بعد صارف کی دنیا بھر تک رسائی ہے۔۔ اب آپ گلگت کے کسی دور دراز گاؤں میں بیٹھ کر کسی امریکی اسٹور سے خریداری کر سکتےہیں۔۔ چمن اور قلعہ عبداللہ میں بیٹھ کر انٹرنیٹ پر کسی یورپی کمپنی کے لئے کام کرسکتے ہیں، پیسے کما سکتے ہیں۔ اپنے گھر میں بیٹھ کر جرمنی کی کسی یونیورسٹی کی آن لائن کلاس لے سکتے ہیں۔۔ گلوبل ولیج کا مطلب مطلق وہ نہیں ہے کو آپ اسے سمجھ رہے ہیں۔۔ نوازش
شاہد اے خان Jan 15, 2016 09:33pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ صاحب، عرض یہ ہے کہ آپ عالمی گاؤں یا گلوبل ولیج کا کچھ اور تصور رکھتے ہیں۔ اصل میں عالمی گاؤں کی اصطلاح انٹرنیٹ آنے کے بعد صارف کی دنیا بھر تک رسائی ہے۔۔ اب آپ گلگت کے کسی دور دراز گاؤں میں بیٹھ کر کسی امریکی اسٹور سے خریداری کر سکتےہیں۔۔ چمن اور قلعہ عبداللہ میں بیٹھ کر انٹرنیٹ پر کسی یورپی کمپنی کے لئے کام کرسکتے ہیں، پیسے کما سکتے ہیں۔ اپنے گھر میں بیٹھ کر جرمنی کی کسی یونیورسٹی کی آن لائن کلاس لے سکتے ہیں۔۔ گلوبل ولیج کا مطلب مطلق وہ نہیں ہے جو آپ اسے سمجھ رہے ہیں۔۔ نوازش