• KHI: Partly Cloudy 28.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.2°C
  • ISB: Cloudy 20°C
  • KHI: Partly Cloudy 28.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 19.2°C
  • ISB: Cloudy 20°C

کراچی میں 'اپنا گھر' بہت سوں کیلئے ایک خواب

شائع January 18, 2016

کراچی: شہرِ قائد میں آئے روز ہم ایک نئی ہاؤسنگ اسکیم لانچ ہوتے دیکھتے ہیں جس میں نئے طرزِ تعمیر، بیش قیمت لوکیشن اور جدید سہولتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ ان تعمیرات میں تنگ فلیٹوں سے لے کر عالیشان اور وسیع و عریض منصوبے بھی شامل ہیں، حقیقت میں شہر راتوں رات پھیلتا ہوا محسوس ہورہا ہے.

ایک ایسے شہر میں جہاں کچی بستیوں اور کم آمدنی والے علاقوں کی بھرمار ہو، اس طرح کی ہاؤسنگ اسکیموں کا وجود عجیب مظہر ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہے کہ جس شہر میں اتنی غربت ہو وہاں ایسی جدید تعمیرات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔

حالانکہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن کراچی نے اس دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اگر آپ کلفٹن سے ڈیفنس، صدر سے ہوتے ہوئے ناظم آباد کی طرف سفر کریں تو آپ کے مشاہدے میں یہ بات آئے گی کہ کراچی میں بلند و بالا عمارتیں جنگلی جھاڑیوں کی طرح پھیلتی جارہی ہیں جن کے لیے بظاہر کوئی منصوبہ بندی بھی نہیں کی گئی.

کراچی میں جاری اس طرح کی بے ہنگم تعمیرات تمام طبقات کے لیے مصیبت کا باعث بن رہی ہیں.

کراچی، لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا کرتا ہے. اسے 'غریبوں کی ماں' سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک کے نچلے طبقات کے لوگوں کو پناہ دیتا ہے اور اسی بنا پر یہ میٹروپولس بنتا ہے، لیکن اس کی یہ خوبی ہی مسائل کا سبب بھی بن رہی ہے اور 'رہائش' شاید کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

ان سارے مسائل کے باوجود اس شہر کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ اسی شہر میں معیاری تعمیرات بھی جاری ہیں جو یہاں کے عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنا رہی ہیں۔ ویسے تو کراچی میں ہر طرف بلند و بالا تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن کلفٹن کے قریب یہ سلسلہ زیادہ زور و شور سے جاری ہے۔

ڈیفنس اور کلفٹن میں پراپرٹی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جس کی بظاہر کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔ تاہم رئیل اسٹیٹ ایجنٹ مصطفیٰ میمن کا خیال ہے کہ ڈیفنس، کلفٹن میں شہر کے دوسرے علاقوں کی نسبت پراپرٹی کی قیمتیں زیادہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ موجود ہے۔

ان علاقوں میں قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود یہاں سرمایہ کاری نہایت منافع بخش ہے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

ایک عمارت تعمیر کے بعد دہائیوں تک چلتی ہے جب کہ زمین کی قیمت تو گزرے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔

سننے کی حد تو یہ ایک اچھا منصوبہ لگتا ہے لیکن رئیل اسٹیٹ کے مستحکم ہونے کی اِن باتوں کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

گرتی چڑھتی اسٹاک مارکیٹ اور کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باوجود کچھ لوگوں کی انفرادی طور پر اتنی بڑی سرمایہ کاری حیرت کا باعث ہے۔

مصطفیٰ میمن کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ گر رہی ہے، گزشتہ سال دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں 10 سے 15 فیصد کمی ہوئی ہے، لیکن پاکستان میں آنے والے دنوں میں رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں منافع میں خاطر خواہ اضافے کی امید ہے اور اس وجہ سے عالمی سرمایہ کار یہاں کا رُخ کر رہے ہیں۔

میمن کا خیال ہے کہ حال ہی میں تیل کی قیمیتوں میں کمی اور ایران پر پابندیوں کے خاتمے سے ہماری مارکیٹ پر مزید اچھے اثرات مرتب ہوں گے، لیکن یہاں پھر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کراچی اس طرح کے منافع بخش مواقعوں اور آنےوالے سرمائے کی ریل پیل سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہے؟

نام نہ بتانے کی شرط پر ایک اسٹاک بروکر نے بتایا کہ کراچی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ ایک دوسرے پر اںحصار کرتے ہیں۔ تاہم جب بھی ان دونوں مارکیٹوں میں سرمایہ آتا ہے تو چند بڑے سرمایہ کار ہیرا پھیری کرنے سے باز نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ ایک دن قیمتیں کچھ ہوتی ہیں تو دوسرے دن کچھ۔

شہر کے دوسرے علاقوں کی نسبت کلفٹن، ڈیفنس میں قیمتوں کا تیزی سے چڑھنا سمجھ سے بالاتر ہے، خاص طور پر اگر صارف کی نظر سے دیکھا جائے تو۔

بہت سے بلڈرز ڈیفنس اور کلفٹن میں جدید طرزِ تعمیر والے بڑے پراجیکٹس متعارف کروا رہے ہیں جس سے لوگوں کے معیار زندگی میں یقیناً بہتری آئے گی لیکن ان کی قیمتیں بھی ویسی ہی ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام کے بجائے اب نوجوان جوڑے ذاتی گھر رکھنا پسند کرتے ہیں، اس لیے چھوٹے فیملی یونٹس کی طلب بڑھتی جارہی ہے، لیکن ان یونٹس کی قیمتیں اکثر لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں جس کا حل یہ نکلتا ہے کہ کرائے پر گھر لیا جائے لیکن بدقسمتی سے کرائے بھی آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں۔

پوش ایریا میں 3 سے چار کمروں کے اپارٹمنٹ کا کرایہ 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے ہے اور جیسے جیسے کمرشل ایریاز کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ قیمتیں کم ہوتی جاتی ہییں لیکن اگر فلیٹ نئے ہیں تو سہولتوں کے لحاظ سے کرائے مذکورہ قیمت سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔

کراچی آپریشن کے بعد سندھ کے دیگر علاقوں سے کراچی شہر کی طرف روزگار اور سرمایہ کاری کے لیے آنے والے افراد کی تعداد کی بھی بڑھتی جارہی ہے۔

مصطفیٰ میمن کا کہنا ہے کہ مورٹگیج سسٹم نا ہونے کی وجہ سے پراپرٹی کی انشورنس اور ٹیکسز کی مد میں آنے والی لاگت کم ہوتی ہے اس لیے لوگ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں یہاں سرمایہ کاری کرنے کے بعد مزید کوئی پریشانی اٹھانے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

قبضہ مافیا پر ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کلفٹن اور ڈیفنس میں کراچی کے دیگر علاقوں کی نسبت سرمایہ کاری زیادہ محفوظ ہے۔

گزشتہ دہائیوں میں کراچی میں زمین پر قبضے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خاص کر ایسے علاقوں میں جہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، جیسا کہ لانڈھی، ہاکس بے، سہراب گوٹھ ، گلستان جوہر، گڈاپ ٹاون، سرجانی ٹاون، میمن گوٹھ اور نیشنل ہائی وے میں قبضہ مافیا اپنے عروج پر ہے۔

عام طور پر بدعنوان سیاستدان اور حکومتی افسران اس طرح کے معاملات میں ملوث ہوتے ہیں، یہ لوگ زمین پر قبضہ، غیر قانونی پانی کی سپلائی، بھتہ خوری اور اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کاموں سے کروڑوں روپے بٹورتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زمینوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کی کامیابی کی نشاندہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اگلے وقتوں میں اس شہر کے اکثر باسیوں کے لیے "اپنا گھر" ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔

یہ مضمون 18 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025